Thursday, June 9, 2016

روزہ کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے کا حکم

روزہ کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے کا حکم
     الحمد للہ رب العالمین ، والصلوۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد
     یہ مسئلہ کافی عرصہ سے عالم اسلا م کی مختلف علمی مجالس میں زیر بحث آرہا ہے کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ بر صغیر کے مختلف دینی مدارس اور دارالافتاء میں اس سے متعلق سوالات بھی آرہے ہیں، اور بعض دینی جرائد میں معاصر علماء کے قلم سے اس موضوع پر چند مضامین اور بعض آراء بھی سامنے آئی ہیں۔
     موضوع کی اہمیت کے پیش نظر جامعہ دار العلوم کراچی کے اکابر علماء اوردار الافتاء کے اہم رفقاء پر مشتمل ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ کا اجلاس منعقد ہوا۔ ۔ ۔۔انفرادی و اجتماعی غور و فکر اور فقہاء  ؒ کی عبارات کے پیش نظر کان کے بارے میں تین صورتیں واضح طور پر سامنے آگئیں:
    الف: …روزہ دار کے کان میں اگر پانی خود بخود چلا جائے مثلا غسل ‘ بارش یا حوض میں غوطہ لگانے وغیرہ کے دوران تو تمام فقہاے احناف بلکہ مذاہب اربعہ کے جمہور فقہاء کے نزدیک اس سے ورزہ فاسد نہیں ہوتا۔اس مسئلہ کی دلیل کے طور پر سیدنا انس بن مالک  ؓ کا عمل بھی صحیح بخاری میںموجود ہے۔ اور فقہی عبارات بھی اس بارے میں معروف ہیں ۔
     ب:…اگر پانی کان میں خود ڈالا گیا ہو ‘ تو اس میں فقہاء احناف ؒ کے دونوں قول ہیں ، ایک قول میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ہدایہ ‘ تبیین الحقائق ‘ محیط‘ ولوالجیہ اور در مختار میں اسے ہی مختار قرار دیا گیا ہے۔ حضرت تھانوی ؒ نے بھی’’ بہشتی زیور‘‘ میں یہی قول اختیار کیا ہے۔ جبکہ فتاوی قاضی خان ‘ بزازیہ‘ فتح القدیر اور برہان میں پانی داخل کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم لگایا گیا ہے۔
     ج:…اگر کان میں دوا ڈالی جائے تو مذاہب اربعہ کے جمہور فقہاء کی نصوص کے مطابق روزہ ٹوٹ جائے گا ، لیکن مالکیہ اور شافعیہ نے فساد صوم کا قول اس شرط کے ساتھ کیا کہ پانی دماغ یا حلق تک پہنچ جائے ‘ اور حنفیہ نے یوں کہا ہے کہ چونکہ کان کے ذریعہ پانی دماغ تک پہنچ ہی جاتا ہے اس لئے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ ا س مسئلہ پر بھی فقہی عبارات تمام معتبر کتابوں میں موجود ہیں۔
     البتہ یہ بات کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ کیوں فاسد ہوگا؟ کسی بھی فقہی کتاب میں اس کی کوئی دلیل حدیث مرفوع ‘ موقوف یا مقطوع کی صورت میں بیان نہیں کی گئی۔ا س کی فقہی وجہ بیان کرنے سے بھی بعض عبارات میں تو سکوت کیا گیا ہے ‘اور بعض میں ’’ الفطر ممادخل ، لا مما خرج ‘‘ کو بنیاد بنا یا گیا ہے ، اور بعض عبارات میں یہ تصریح ہے کہ کان میں دوا ڈالنے سے اگر دوا حلق میں جائے تو روزہ فاسد ہوگا ‘ ورنہ نہیں۔
     اور بعض عبارات بلکہ کئی عبارات میں ا س کی صراحت ہے کہ کان میںدوا ڈالنے سے دوا دماغ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ، اور دماغ یا تو بعض ائمہ کے نزدیک خود جوف معتبر ہے ، اس لئے دماغ میں دوا پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اور بعض دوسرے حضرات کے نزدیک دماغ اس لئے جوف معتبر ہے کہ دماغ سے حلق کی طرف راستہ ہونے کی بنا پر دوا حلق یا معدے میں جائے گی ، اور حلق یا معدے میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
     اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء ؒ کے نزدیک بھی کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ دوا جوف معتبر یعنی دماغ یا حلق تک پہنچ جاتی ہے، ’’ وھو الاصل فی الافطار‘‘۔
     اب رہی یہ بات کہ کان میں دوا ڈالنے سے کیا دوا‘ واقعۃً حلق یا دماغ کی طرف کسی منفذ کے ذریعہ منتقل ہوتی ہے یا نہیں؟ تو یہ مسئلہ فقہ سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ طب اور فن ’’ تشریح الابدان‘‘ سے تعلق رکھتا ہے، اور اس بارے میں اطباء کے متفق علیہ قول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ قرآن و سنت کی نصوص سرے سے موجود ہی نہ ہوں اور فقہاء کے اقوال خود محتمل ہوں ، اور ان میں بھی فقہاء نے خود تشریح البدن کو مدار حکم بنایا ہو۔
     چنانچہ خود فقہاء ؒ نے اس کی صراحت فرمادی ہے کہ ان جیسے مسائل ( تشریح البدن) کا تعلق فقہ سے نہیں( بلکہ طب سے ہے) یعنی ان جیسے مسائل میں نص شرعی نہ ہونے کی بنا پر فقہاء کی آراء تشریح اعضاء کے بارے میں اطباء کی آراء سے ماخوذ یا ان پر مبنی ہیں ، جس کی چند نظیریں درج ذیل ہیں:
     ۱:…فقہاء احناف کے درمیان ’’ اقطار فی الاحلیل ‘‘کے مفسد صوم ہونے میں اختلاف ہے، اور اس کی وجہ کوئی نص یا شرعی دلیل نہیں ، بلکہ یہ اختلاف اس عضوکی تشریح میں اختلاف پر مبنی ہے۔
     ۲:…حضرات فقہاء شوافع کے درمیان خود کان کے مسئلہ میں دو قول ہیں ، بعض حضرات نے ’’  اقطار فی الاذن‘‘ کو مفسد صوم قرار نہیں دیا ، اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ کان سے حلق یا دماغ تک کوئی منفذ نہیں۔
     ۳:…’’ اقطار فی فرج المرأۃ‘‘ میں بعض فقہاء مالکیہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کومفسد صوم قرار دینا صحیح نہیں، کیونکہ یہاں سے کوئی منفذ جوف کی طرف نہیں۔
     ۴:…حضرت امام مالک  ؒ کا ارشاد ہے کہ کان میں تیل ڈالنے سے اگر وہ حلق میں پہنچ گیا تو روزہ ٹوٹے گا ‘ورنہ نہیں ۔ اس سے بھی واضح ہے کہ امام مالک  ؒ کے نزدیک حکم شرعی کا مدار تشریح عضو پر ہے۔
     جب فقہء کرام نے اس کی تصریح کردی ہے‘ تو اب دیکھا جائے گا کہ تشریح ابدان کے ماہر اطباء کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ بظاہر قدیم اطباء کا موقف وہی ہے جو مذکورہ بالا فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے ( اگر چہ فقہی عبارات میں اطباء کا حوالہ نہیں دیا گیا)۔
     اس مقصد کے لئے ہم نے کچھ قدیم طبی کتابوں کی طرف براہ راست مراجعت کی کوشش کی ، مگر طبی کتابوں سے ہمیں اس کی وضاحت نہ مل سکی ، البتہ ’’الموجز المحشی‘ ‘  کے حاشیہ میں درج عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے اطباء کان کا تعلق دماغ سے تسلیم کرتے تھے۔
     مگر اب ایک عرصہ سے تمام اطباء اور تشریح ابدان کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کان کے اندر سے دماغ تک کوئی راستہ موجود نہیں ہے ، اور اس بات پر بھی سارے اطباء اور ماہرین متفق ہیں کہ عام صحت مند آدمی کے کان سے حلق تک بھی کوئی ایساراستہ کھلا ہو انہیں ہے کہ جس سے دوا یا پانی حلق میں خود بخود جاسکے ، کیونکہ کان کے آخر میں ایک باریک مگر مضبوط پردہ ہے جس نے حلق یا دماغ کی طرف جانے کا راستہ مسدود کیا ہوا ہے ، اور عام حالات میں کان میں ڈالی جانے والی کوئی بھی دوا یا غذا حلق تک نہیں جاتی ، الا یہ کہ کسی کے کان کا پردہ پھٹ جائے یا کان کے پردے میں واضح سوراخ ہوجائے تو ایسی بیماری یا غیر معمولی صورت حال میں دوا اندرونی کان سے حلق کی طرف منتقل ہوسکتی ہے ‘ ورنہ نہیں۔
     ادھر یہ بات بھی بدیہی ہے کہ بیہوشی اور بیماری کی بعض صورتوں میں دوا اور غذا ناک کے راستہ سے ٹیوب کے ذریعہ معدے تک پہنچائی جاتی ہے‘ جس کا مشاہدہ ہسپتال وغیرہ میں ہوتا ہے ، لیکن کان کے ذریعہ غذا یا پانی حلق یا معدے تک پہنچانے کی کوئی صورت آج تک نہ دیکھی گئی نہ سنی گئی۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کان سے حلق تک کوئی منفذ موجود نہیں۔
     اب جبکہ تمام اطباء اور تشریح ابدان کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کان میں دوا ڈالنے سے دماغ تک اس کے پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کان میں دوا ڈالنے کی صورت میں حلق تک اس کے پہنچنے کا بھی عام حالات میں کوئی راستہ نہیں ‘ تو ا س کا کسی جوف معتبر تک پہنچنا ثابت نہیں ہوتا۔ اور مذاہب اربعہ اس پر متفق ہیں کہ منافذ معتبرہ سے جوف معتبر تک پہنچنے ہی سے روزہ فاسد ہوتا ہے‘ اس کے بغیر نہیں۔
     اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ نے درج ذیل امور پر بطور خاص غور کیا:
     ۱:… فقہاء کرام  ؒ کی عبارات۔
     ۲:…حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم کی وہ تحقیق جو حضرت موصوف نے اپنی تحقیقی کتاب ’’ ضابط المفطرات‘‘ کے ص ۵۸ ؍پر درج فرمائی ہے، اور جس کے ظاہر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوناچاہئے۔
     ۳:…حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب مدظلہم کا جو فتوی ۲۴؍ جمادی الثانیہ ۱۴۲۲ھ کو تحریر کیا گیا۔ اس فتوی میں بھی کان میں دوا ڈالنے کو مفسد صوم قرار نہیں دیا گیا ۔
     ان تمام امور پر غور کرنے کے بعد’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ ‘‘ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ کان کے اندر پانی‘ تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، الا یہ کہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہو اہو‘ اور وہ پانی ‘ تیل یا دوا وغیرہ اس کے حلق تک پہنچ جائے۔
     البتہ اس کے باوجود اگر کوئی شخص قدیم جمہور فقہاء کے قول کے مطابق خود احتیاط کرے اور ورزہ کی حالت میں کان کے اندر دوا ڈالنے کے بجائے افطار کے بعد تیل یا دوا دالے تو اس کے لئے ایساکرنا بہتر اور شبہ سے بعید تر ہوگا۔
      یہ تحریر ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ کے اجلاس منعقدہ ۲۰؍ شعبان ۱۴۲۲ھ میں پڑھ کر سنائی گئی اور ترمیم و اضافہ کے بعد آخری شکل دیتے ہوئے مندرجہ ذیل تمام شرکاء نے اس کی تصدیق کی اور اپنے دستخط ثبت فرمائے:
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی محمود اشرف صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی عبد المنان صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی اصغر علی ربانی صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی محمد کمال الدین صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا تفضل شاہ صاحب مدظلہم ‘مولانا زبیر اشرف صاحب مدظلہم ‘مولانا عمران اشرف صاحب مدظلہم ‘مولانا یحی صاحب مدظلہم ‘مولانا عصمت اللہ صاحب مدظلہم ‘مولانا حنیف خالد صاحب مدظلہم ‘مولانا زبیر سمشی صاحب مدظلہم‘ مولانا حسین احمد صاحب مدظلہم ‘مولانا یعقوب صاحب مدظلہم‘ مولاناافتخار بیگ صاحب مدظلہم‘ مولانا حسان کلیم صاحب مدظلہم ‘مولانا خلیل صاحب مدظلہم‘ مولانا سلیمان صاحب مدظلہم‘ مولانا یاسر عرفات صاحب مدظلہم ۔
نوٹ:… اختصار کے پیش نظر تمام عبارتیں ’’ البلاغ‘‘ سے حذف کردی گئی ہیں ، جو حضرات عبارتیں حاصل کرنا چاہیں وہ دار الافتاء جامعہ کراچی سے حاصل کر سکتے ہیں۔( ماہنامہ ’’ البلاغ‘‘ کراچی،بابت رمضان ۱۴۲۲ھ) مرغوب الفتاوی جلد سوم

No comments:

Post a Comment