Monday, April 8, 2019

سودی بینکوں کے کچھ جائز کام

اسلامی بنکاری، ضروری گزارشات
مفتی ارشاد احمداعجاز
ہمارے ہاں روایتی بینک  کے کام کو مطلقا برا سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ سے دو قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں:

پہلی غلط فہمی یہ پیدا ہوئی ہے کہ بینک کا کوئی کام حلال نہیں ہوتا۔حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ بینک کا نیٹ ورک  پھیلا ہوا ہوتا ہے، کیش مینیجمنٹ کی صلاحیت بینک سے زیادہ اچھی کسی کی نہیں ہوتی اور بینک ،ادائیگی کے نظام (پیمنٹ سسٹم) کا حصہ ہوتا ہے لہذا ان تین وجوہات کی بنا پر بینک کو دو بنیادی کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے:

 (1) کلیکشن اینڈ پیمنٹ ایجنسی (الوکالة للقبض والأداء/الإعطاء) یعنی بینکنگ سسٹم کو ادارے اپنے واجبات کی وصولی کےلیےوکیل مقرر کرتے ہیں۔ چنانچہ تمام یوٹیلیٹی بل، اسکولوں کی فیسیں، یونیورسٹی کی فیسیں اور اس کے علاوہ دیگر وصولیاں سب اسی تصور کے تحت ہوتی ہیں۔ بنک اس ایجنسی (وکالة القبض) کی  اجرت (کمیشن) وصول کرتا ہے۔

آج کل بہت سی آن لائن خرید و فروخت کی کمپنیاں بینک کے ساتھ یہ معاہدے کرکے ان کے ذریعے ان کے ذریعے خرید و فروخت کی ادائیگیاں کراتے ہیں۔ٹیلی نار کا ایزی پیسہ، یو بی ایل کا اومنی اور اسی طرح کی دوسری اور خدمات دینے والی اسکیمیں اسی تصور کے تحت ہیں۔

ان سرگرمیوں کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر واجبات جائز ہوں تو ان کی وصولیابی پر کمیشن لینا بھی بلاشبہ درست ہے۔ لہذا روایتی بینک کی یہ آمدنی جائز ہوتی ہے۔

(2) دوسرا کام جس کےلیے بینک کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے وہ ہے بینک کے ذریعے فروخت کرنا۔ اوپر بیان کردہ تین وجوہات کی وجہ سے بینک ایک بہت اچھا 'تقسیم کار' (ڈسٹری بیوشن چینل)  بھی ہے۔ لہذا اگر کوئی ادارہ اپنی خرید و فروخت کا نظام بینک سے جوڑ دے یعنی اپنی مصنوعات بینک کے ذریعے بیچنا چاہے تو بینک اس کے لیے ایک بہت اچھا نیٹ ورک ثابت ہوتا ہے۔

لہذا جتنے فلیٹ اور کنسٹرکشن کے پروجیکٹس ہیں وہ عموما بینک کو اپنا ڈسٹری بیوشن چینل بناتے ہیں، بینک سے ان کے فارم ملتے ہیں اور بینک ہی میں ان کی پیمنٹ جمع کرائی جاتی ہیں۔ اسی طرح انشورنس اور دوسری مالیاتی مصنوعات کو بھی بینک کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔ شیئرز کو جب پہلی دفعہ عوام کو فروخت کےلیے پیش کیا جاتا ہے (پبلک آفرنگ) تو بینکوں کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔

ان سب خدمات پر بینک کمیشن لیتا ہے جس کا شرعا وہی حکم ہے جو اوپر عرض کیا یعنی اگر جائز کام کا کمیشن ہے تو یہ کمیشن جائز ہے۔

دوسری غلط فہمی جو بینک کے بارے میں پیدا ہوئی ہے وہ یہ  ہے کہ بینک کے سارے کام ،سود کھانے یا کھلانے کی غرض سے ہی  کیےجاتے ہیں لہذا ان کی طلب حرام ہونے کی وجہ سے ان کی طلب کو جائز طریقوں سے پورا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔

یہ غلط فہمی بینکاری کے نظام کو 'مالیاتی وسائل فراہم کرنے والے نظام' کے طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔      

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بینک کے پاس جانے والا بنیادی طور پر اپنی جائز ضرورت لے کر جاتا ہے۔ اس کو یا تو سرمایہ کاری کرنا ہوتی ہے یا اپنی ضرورت کے لیےسرمایہ چاہیئے ہوتا ہے۔ اب وہ جس نظام کے پاس جاتا ہے وہ اس کو جائز ضرورت کا ناجائز حل یعنی سودی حل پیش کرتا ہے۔ لہذا اصل خرابی اس حل میں ہے جو سودی نظام ،ضرورت مندوں کو پیش کرتا ہے، ان ضرورتوں میں عموما کوئی خرابی نہیں ہوتی جو ضرورتیں پورا کرنے کے لیےلوگ بینکاری کے نظام سے رجوع کرتے ہیں۔

لہذا اسلامی بینک اور روایتی بینک کے پاس آنے والی ضرورتیں عموما ایک جیسی ہوں گی، جیسے :گھر، گاڑی، تعلیم، صحت، کاروبار اور دیگر حاجات۔ ان کو پورا کرنے کا طریقہ شرعا درست ہونا چاہیئے۔

لہذا میری نظر میں جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اسلامی بینک بھی وہی چیزیں کرتا ہے جو روایتی بینک کرتے ہیں تو اس اعتراض کے پیچھے یہ لاعلمی کارفرما ہوتی ہے۔

سوچنے کی بات ہے اگر کوئی گاڑی لینے آئے گا تو اس کو گاڑی ہی دی جائےگی کچھ اور تو دیا جا نہیں سکتا۔

بینکاری کے نظام کے بارے میں پائی جانے والی اس دوسری غلط فہمی کے نتیجے میں لوگ اسلامی بینک پر اعتراضات کرتے ہیں۔

پاکستان میں 5 مکمل اسلامی بینک ہیں:

1۔ میزان بینک۔

2۔ بینک اسلامی۔

3۔ دبئی اسلامک بینک۔

4۔ البرکہ بینک۔

5۔ برج بینک (اس کو البرکہ بینک نے خرید لیا ہے)۔

اس کے علاوہ مندرجہ ذیل بینکوں کی اسلامی بینکنگ کی برانچیں ہیں:

1۔ حبیب بینک۔

2۔ یو بی ایل۔

3 ایم سی بی۔

4 الائیڈ بینک۔

5۔ بینک الفلاح۔

6۔ بینک الحبیب۔

7۔ حبیب میٹرو پولیٹن بینک۔

8۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک۔

9۔ سنہری بینک۔

10۔ نیشنل بینک۔

11۔ سمٹ بینک (یہ بینک 3 سے 4 سال میں مکمل اسلامی بینک میں تبدیل ہو جائےگا)۔

12۔ سندھ بینک۔

13۔ بینک آف پنجاب۔

14۔ بینک آف خیبر۔

15۔ فیصل بینک۔ (یہ بینک بھی 3 سے 5 سال میں مکمل اسلامی بینک میں تبدیل ہونے کا منصوبہ رکھتا ہے)۔

16۔ سلک بینک۔

17۔ عسکری بینک۔

یہ سارے بینک (مکمل بینک اور اسلامی برانچوں والے بینک) ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اکاؤنٹ کھولنا شرعا درست ہے۔

دو تین بینک ہیں جن کی اسلامی برانچیں نہیں ہیں جیسے:

1۔ فرسٹ ویمن بینک۔

2۔ این آئی بی بینک۔

روایتی بینکوں کے اسلامی بینکنگ ڈویژن کے علاوہ دوسرے ان شعبوں میں ملازمت کرنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا ہے جو شعبے روایتی بینکاری کرتے ہیں۔ صرف دو صورتیں ہیں جن کے لیے بعض مخصوص شعبوں(وہ شعبے جو براہ راست سودی معاملات میں ملوث نہیں ہوتے، صرف  سپورٹ فنکشن ہوتے ہیں) میں ملازمت کی گنجائش پر فتوی دیتے ہیں:

ایک شدید مجبور بے روزگار کو، اور دوسرا اس شخص کو جو ان شعبوں میں ملازم ہو اور اس کے لیےبینک چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنا فی الفور ممکن نہ ہو۔

وہ شعبے جو براہ راست سودی معاملات میں ملوث نہیں ہوتے، صرف  سپورٹ فنکشن ہوتے ہیں، یہ ہیں:

کیش مینجمنٹ کا کام

انتظامی نوعیت کے کام (ایڈمن) صفائی ستھرائی، مرمت وغیرہ، دیکھ بھال وغیرہ

چوکیداری

یوٹیلیٹی بلوں کی وصولی

کمپیوٹر پرنٹنگ، کمپوزنگ وغیرہ اگر سودی معاملات سے تعلق نہ ہو۔

Friday, January 18, 2019

اﳌﺴﺎﺋﻞ اﳌﺨﺎﻟﻔﺔ ﻟﺮﺳﻢ اﳌﻔﺘﻲ ﰲ ﻣﺨﺘﴫ اﻟﻘﺪوري


رابط التحميل

علم رسم المفتي، فهو علم
يبحث في كيفية تطبيق الفقه في الواقع .
وأصوله هي: الضرورة، والحاجة، ورفع الحرج، والتيسير، وفساد الزمان، والعرف، والمصلحة،
وعامة الأحكام الفقهية متعلقة بهذه الأمور، فكان لها تأثيرها البالغ في اختلافها من مجتهد إلى مجتهد، بسبب ختلاف بيئة الفقهاء وعصورهم، فقد كان لذلك أثر كبير في اختلافهم في كثير من الأحكام والفروع، حتى إنَّ الفقيه الواحدَ كان يرجع عن كثيرٍ من أقوالِه إلى أقوال أُخرى إذا تعرّض لبيئةٍ جديدةٍ تُخالف البيئة التي كان فيها.

وهذا العلمُ هو الأصولُ التي يعتمدُ عليها المجتهدُ في المذهبِ في التّرجيح والتّفريع والتّطبيق والإفتاء، كما يعتمد
المجتهدُ المستقلّ على أصولِ الفقه لاستخ ا رج الأحكام من الكتاب والسّنّة والآثار والتّرجيح بينها، فكما لا غنى للمجتهد المطلق عن أصول الفقه فهي القواعد التي تُمَكّنه من القيامِ بعلمه واستفراغ جهده في استنباط الأحكام، وهي آلته في ذلك فكذلك العالم في المذهب، فإنَّ رسمَ المفتي هي الأداة التي يتمكَّن بها من القيام  بعمله، وبذل جهده في إن ا زل الفقه على الواقع، والخروج من دائرة الخلاف، وتلبية حاجات مجتمعه، فهي الوسيلة لذلك. وكما أنَّ أُصولَ المجتهد المطلق تدور في محاور رئيسيّة فيها العديد من القواعد الأصوليّة وهي: الكتاب والسّنّة والإجماع والقياس، فكذلك فإنَّ أصولَ المجتهد في المذهب لها محاور رئيسيّةٌ مليئةٌ بقواعدِ الإفتاء، وهذه المحاور: هي الضرورة والعرف والتيسير، فهذه هي الأُصول الكبرى في رسم المفتي التي يرتكز عليها المفتي في فهمه وضبطِهِ وتطبيقِهِ للفقه.
اهتم البحث بإظهار عِلم رسم المفتي، وهو علم تطبيق الفقه؛ لأنَّه الحلقة ما بين المكلّفين والواقع وبين مسائل المجتهدين، ومن غير الالتفات إليه يكون علم الفقه عسي ا رً ونظرياً، وذلك باستخ ا رج مسائل من أشهر كتب مختص ا رت الفقه الحنفي، وهو التي تمسك فيها بظاهر الرِّواية، وخالف قواعد الرسم من: العرف، وفساد الزمان، والمصلحة، والتيسير، ،« مختصر القُدُوريّ »ورفع الحرج، فكانت الفتوى على خلاف ما عليه المتن؛ م ا رعاة للرسم من قبل علماء المذهب حيث نصوا على ذلك، فكان والتعريف بعلم الرسم وأهميته، والمبحث الثّاني في المسائل ،« مختصر القُدُوريّ » المبحث الأول في بيان الدرجة الرفعية لمختصر القُدُوريّ  والتعريف بعلم الرسم والمبحث الثّاني في المسائل المخالفة للرّسم، ببيان المسائل المخالفة للعرف وهي عشر، والمسائل المخالفة لفساد الزمان وهي ست، والمسائل المخالفة للمصلحة وهي ثنتان، والمسائل المخالفة للتيسير ورفع الحرج، وهي أربع، بالمقارنة مع كتب المذهب الحنفي،
وختمت البحث بخاتمة بينت فيها أهم النتائج

رابط التحميل

https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=https://journals.ju.edu.jo/DirasatLaw/article/download/8853/7014&ved=2ahUKEwjS_Jb2pfnfAhUQbn0KHS6nB48QFjABegQIBRAB&usg=AOvVaw1WWYK7I4EfHWBJXsoElIHF