Saturday, August 13, 2016

بعض اہم اور جدید کتابیں


العنوان: 
مجلة الأحكام العدلية : فقه المعاملات في المذهب الحنفي معها قرار حقوق العائلة في النكاح المدني و الطلاق، النكاح-الإفتراق
عناية: بسام عبدالوهاب الجابي
الناشر: دار إبن حزم- الطبعة الأولى 2004

https://ia601308.us.archive.org/13/i...8%A7%D8%A8.pdf

----------------------------------------------------------------------------------

بيانات الكتاب:
"شرح حياة الصحابة" للكاندهلوي 
شرح: محمد إلياس الباره بنكوي
قدم له: أبو الحسن الندوي ـ عبد الفتاح أبو غدة
4 أجزاء ـ دار ابن كثير.
نظرا لأن حجم كل جزء من الكتاب كبير فقد قسمته إلى 8 أقسام ( كل جزء في قسمين أ و ب)
الجزء الأول:
أ 
http://www.4shared.com/file/12640830.../_______1.html
ب
http://www.4shared.com/file/12643432.../_______1.html

الجزء الثاني
أ
http://www.4shared.com/file/12645165...0/______2.html
ب
http://www.4shared.com/file/12642140...4/______2.html

الجزء الثالث:
أ
http://www.4shared.com/file/12813695...c/______3.html
ب
http://www.4shared.com/file/12814184...6/______3.html

الجزء الرابع:
أ
http://www.4shared.com/file/12816719...7/______4.html
ب
http://www.4shared.com/file/12817250...e/______4.html


-----------------------------------------------------------------

ألعاب الصبيان في عصر الرسالة
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/attachment.php?attachmentid=104458&d=1367499151


المفتي عميم الإحسان المجددي
أدب المفتي
http://www.4shared.com/get/gpR7Sxzrba/__online.html

بعض اہم اور جدید کتابیں


العنوان: 
مجلة الأحكام العدلية : فقه المعاملات في المذهب الحنفي معها قرار حقوق العائلة في النكاح المدني و الطلاق، النكاح-الإفتراق
عناية: بسام عبدالوهاب الجابي
الناشر: دار إبن حزم- الطبعة الأولى 2004

https://ia601308.us.archive.org/13/i...8%A7%D8%A8.pdf

----------------------------------------------------------------------------------

بيانات الكتاب:
"شرح حياة الصحابة" للكاندهلوي 
شرح: محمد إلياس الباره بنكوي
قدم له: أبو الحسن الندوي ـ عبد الفتاح أبو غدة
4 أجزاء ـ دار ابن كثير.
نظرا لأن حجم كل جزء من الكتاب كبير فقد قسمته إلى 8 أقسام ( كل جزء في قسمين أ و ب)
الجزء الأول:
أ 
http://www.4shared.com/file/12640830.../_______1.html
ب
http://www.4shared.com/file/12643432.../_______1.html

الجزء الثاني
أ
http://www.4shared.com/file/12645165...0/______2.html
ب
http://www.4shared.com/file/12642140...4/______2.html

الجزء الثالث:
أ
http://www.4shared.com/file/12813695...c/______3.html
ب
http://www.4shared.com/file/12814184...6/______3.html

الجزء الرابع:
أ
http://www.4shared.com/file/12816719...7/______4.html
ب
http://www.4shared.com/file/12817250...e/______4.html


-----------------------------------------------------------------

ألعاب الصبيان في عصر الرسالة
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/attachment.php?attachmentid=104458&d=1367499151


المفتي عميم الإحسان المجددي
أدب المفتي
http://www.4shared.com/get/gpR7Sxzrba/__online.html

Sunday, July 24, 2016

عورتوں کے لئے چہرہ چھپانے کا حکم

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عورتوں کیلئےچہرہ چپانا فرض ہے جب فتنہ کا خوف ہو. اس کا حوالہ عربی میں دیجئے، مہربانی ہوگی.
{{ عورتوں کے لئے چهرے کا پرده کرنا بهی واجب و ضروری هے پردے میں چهره بهی شامل هے }}
===================================
" يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا "
* سوره الاحزاب آیت 59 *
ترجمه.....اے پیغمبر! کہو اپنی بیویوں بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہ وہ لٹکا دیا کریں اپنے (چہروں کے) اوپر کچھ حصہ اپنی چادروں کا یہ طریقہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جایا کریں پھر ان کو کوئی ایذاء نہ پہنچنے پائے اور اللہ تو بہرحال بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے.
_________________________________
1: تشریح.....تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔
2: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔
امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔
حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔
3: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔
* تفسیر حضرت امام ابن کثیر ...سوره احزاب آیت نمبر 59 *
* تفسیر ابن جریر *
___________________________________
4: اس لئے عورت کو سارا بدن سر سے لے کر پیر تک چهپائے رکهنا هے غیر محرم کے سامنے اپنے هاته پیر ، سر کے بال کهولنا درست نهیں.
آنکهیں بهی زینت میں شامل هے اس لئے بعض بهنیں اس طرح سے چهره چهپاتی که اس کا آدها چهره کهولا هوتا هے لهذا اس سے بهی بچنا چاهیئے بلکه پورا چهره چهپانا چاهیے آج کل ایسے کپڑے سے بهی چادر بنایا گیا هے جس کے پیچهے سے راسته آسانی سے دیکها جاسکتا هے وه کپڑا آنکهوں کے لئے استعمال کیا کریں. تاکه آنکهیں بهی ڈهکی رهے اور راسته بهی آسانی سے نظر آئے.
___________________________________
5: الله تعالی نے فرمایا هے " وَلاَ یُبدِینَ زِینتَهُنَّ اِلاَّ ماَظَهَرَ مِنهاَ "
* سوره النور آیت31 *
ترجمه...عورتیں اپنی زینت کو ظاهر نه کریں مگر جوکهلا رهتا هے .
اس آیت مبارک کی وضاحت یه هے.... عورتیں اپنی زینت کو ظاهر نه کریں مگر جو کچه باَمر مجبوری کهلا رهتا هو... زینت سے مراد هر هو چیز هے جس سے انسان اپنے آپ کو خوبصورت اور خوشنما بنائے.
6: آیت میں " اِلاَّ ماَظَهَرَ " سے مراد حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عںه نے کپڑے ، زیور یا بناو سنگهار کی چیزیں بهی مراد لی هے .
اس کی دلیل بهی آیت سے هے " خُذُوا زِینتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدِِ " الاعراف ...لو اپنی زینت هر نماز کے وقت.
اس آیت میں زینت سے مراد کپڑے هیں اور مسجد سے مراد نماز هے ان معانی کے مطابق عورت کے لئے اپنے کپڑوں اور زیور کی نمائش بهی غیرمردوں کے سامنے منع هے.
پس اس سے ثابت هوا که جسم کو زینت کے جسمانی اعضاء کو ظاهر کرنا تو بدرجه اولی منع هوگا.
اس صورت میں مطلب بالکل صاف هے که اوپر کا کپڑا یعنی " برقعه " یا بیرونی چادر اس چهپانے کے حکم سے مستثنی هے وه اس میں شامل نهیں باقی تمام کپڑوں اور زیور ، اپنے جسم کی زینت کو چهپانا فرض هے.
7: حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه نے زینت سے مراد اعضاء زینت بهی مراد لئے هیں .
اس کی وضاحت یه هے که اگر عورت کو مجبوری کے تحت بیماری کے علاج کے لئے یا شناخت کے لئے یا گواهی دینے کے لئے شرعی قاضی یا حاکم کے سامنے مواضع زینت کو کهولنا پڑے تو مجبوری کے تحت جائز هے .
اور مواضع زینت سے مراد " چهره اور هتیهیلیاں " هے..... اس بات پر علماء متفق هے که جب عورت کے چهرے کی طرف دیکهنا شهوت ابهرنے کا سبب بنے تو ایسی صورت میں عورت کے لئے چهره چهپانا اور مرد کا اس کی طرف نه دیکهنا فرض هے.
حتی کے قاضی یا حاکم بهی شناخت کے لئے اگر دیکهنا پڑا تو پهلی نظر بلاشهوت جائز هوگی دوسری نظر حرام هوگی.
_
بوڑهی عورت کے لئے اتنی گنجائش هے که وه صرف منه ، اور هتهیلی اور ٹخنے سے نیچے پیر کهولنا درست هے باقی اور بدن کا کهولنا کسی طرح سے درست نهیں.
______________________________________
سوره الاحزاب آیت نمبر 33... " وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا "
ترجمه.... " اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے "
_____________________________________
9: شریعت نے عورت کے ذمے کوئی ایسا کام نهیں لگایا که جس کی وجه سے اسے چار دیواری نے نکلنا پڑے وقتی ضرورت تو مجبوری اور معذوری میں داخل هے تا هم عورت جس قدر گهر میں رهے گی اتنا هی الله تعالی کا قرب پائے گی.
* ابن حبان *.... میں هے عورت اپنے رب سے سب سے زیاده اس وقت قریب هوتی هے جب وه اپنے گهر کے درمیان میں چهپی هو.
* طبرانی شریف میں هے* ... عورت صرف شرعی ضرورت کے تحت گهر سے نکلے.
___________________________
10: * امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکهتے هیں * که نیک بخت اور صاحب عزت عورت کا نشان گهونگهٹ هے تاکه بدنیت ، فاسق ، فاجر ان کے ساته چیڑ چهاڑ نه کریں.
عورت جب باهر هو تو شیطان اس کو غیرمردو کی طرف اور اس کو بهی غیرو کی طرف مائل کرنے میں لگتا هے اور ان کو بدنظر کا مرتکب کرواتا هے .
* ان المرءته عورته فاذا خرجت استشرفها الشیطان *..... یه نبی علیه السلام نے ارشاد فرمایا .
امام ابن کثیر نے اس کی وضاحت کی هے.... عورت چهپانے کی چیز هے جب گهر سے نکلتی هے تو شیطان اسے جهانکتا هے.
11: دوسرامعنی یه هے که شیطانی شهوانی نفسانی زندگی گزارنے والے لوگ عورت کو گهر سے باهر دیکه کر للچائی نظروں سے دیکهتے هیں ایسے فاسق ، فاجر ، فاحش لوگ شیطان کے نمائندے هوتے هیں ان کے جهانکنے کو شیطان کا جهانکنا کها گیا هے.
* مشکوته شریف * میں نبی علیه السلام کا فرمان هے کتاب النکاح میں....میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیاده بڑا فتنه کوئی نهیں دیکها.
یه چند باتیں هے جس سے فتنه پهیلنے کا اور زنا و فحاشی کا راسته کهولنے کا اندیشه هوتا هے.
فاسقین فاجرین بے پرده عورتوں کو دیکه کر هی شر انگیز منصوبے بناتے هیں اس لئے همیں قریب هی نهیں جانا چاهے فحاشی و بدکاری کے کاموں کے.
بلکه ایک اور واضیح روایت نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے عورتوں کو حالت احرام میں چهروں پر نقاب ڈالنے اور دستانے پهننے سے منع فرمادیا تها.
اس سے ظاهر هوتا هے که اس خیرالقرون کے دور میں نبی علیه السلام کے مبارک دور سے هی چهروں کے لئے نقاب اور هاتهوں کو چهپانے کے لئے دستانوں کا رواج عام هوچکا تها.
12: حضرت عائشہ فرماتى ہیں كہ ہم رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ حالت احرام ميں ہوتی تھیں ۔ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ، جب ہمارے سامنے آتے تو ہم ميں سے ہرایک اپنی چادر اپنے سر سے نیچے لٹکا لیتی ۔ پھر جب وہ گزر جاتے تو ہم پردہ پیچھے ہٹا لیتے۔
( حديث: بحوالہ سنن أبى داود: كتاب المناسك ۔ باب في المحرمہ )
اس لئے یه فتوی هے " عورت کو چهره کهولنے سے روکا جائیگا ان کو اجازت نهیں دی جائی گی که وه اپنا چهره کهولیں کیونکه چهره کهولنے کی صورت میں غیرمردوں کی طرف سے ان پر شهوت بهری نگاه پڑتی هے "
* درمختار جلد اول *

Thursday, July 7, 2016

صيام الست من شوال


تفصيل رائع من شيخنا الفقيه محمد بن محمد المختار الشنقيطي - حفظه الله .عن صيام الست من شوال .
هل تصام أيام العيد أم أن من الفقه تأخيرها  ؟؟
قال الشيخ - حفظه  الله  :-
الأفضل الذي تطمئن إليه النفس، أن الإنسان يترك أيام العيد للفرح والسرور .
ولذلك ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال في أيام منى:
(إنها أيام أكل وشرب)، كما جاء في حديث عبد الله بن حذافة :
(فلا تصوموها) ، فإذا كانت أيام منى الثلاثة لقربها من يوم العيد أخذت هذا الحكم، فإن أيام الفطر لا تبعد فهي قريبة.
ولذلك تجد الناس يتضايقون إذا زارهم الإنسان في أيام العيد فعرضوا عليه ضيافتهم، وأحبوا أن يصيب من طعامهم فقال:
إني صائم، وقد جاء عنه عليه الصلاة والسلام أنه لما دعاه الأنصاري لإصابة طعامه ومعه بعض أصحابه، فقام فتنحى عن القوم وقال:
إني صائم، أي: نافلة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:
(إن أخاك قد تكلّف لك فأفطر وصم غيره).
فحينما يدخل الضيف في أيام العيد، خاصة في اليوم الثاني والثالث، فإن الإنسان يأنس ويرتاح إذا رأى ضيفه يصيب من ضيافته، كونه يبادر مباشرة في اليوم الثاني والثالث بالصيام لا يخلو من نظر .
فالأفضل والأكمل أن يطيب الإنسان خواطر الناس، وقد تقع في هذا اليوم الثاني والثالث بعض الولائم، وقد يكون صاحب الوليمة له حق على الإنسان كأعمامه وأخواله، وقد يكون هناك ضيف عليهم فيحبون أن يكون الإنسان موجوداً يشاركهم في ضيافتهم.
فمثل هذه الأمور من مراعاة صلة الرحم وإدخال السرور على القرابة لا شك أن فيها فضيلة أفضل من النافلة.والقاعدة تقول:
(أنه إذا تعارضت الفضيلتان المتساويتان وكانت إحداهما يمكن تداركها في وقت غير الوقت الذي تزاحم فيه الأخرى، أُخرت التي يمكن تداركها) .
فضلاً عن أن صلة الرحم لاشك أنها من أفضل القربات .
فصيام ست من شوال وسّع الشرع فيه على العباد، وجعله مطلقاً من شوال كله، فأي يوم من شوال يجزئ ما عدا يوم العيد.
بناءً على ذلك فلا وجه لأن يضيق الإنسان على نفسه في صلة رحمه، وإدخال السرور على قرابته ومن يزورهم في يوم العيد، فيؤخر هذه الست إلى ما بعد الأيام القريبة من العيد؛ لأن الناس تحتاجها لإدخال السرور وإكرام الضيف، ولا شك أن مراعاة ذلك لا يخلو الإنسان فيه من حصول الأجر، الذي قد يفوق بعض الطاعات كما لا يخفى.

من شرح زاد المستقنع_ باب:
صوم التطوع
اللهم صل على محمد وعلى آله وصحبه وسلم

Wednesday, June 15, 2016

طویل النہار مقامات میں روزے کاحکم

طویل النہار مقامات میں ( یعنی جن علاقوں میں دن کافی لمبا ہو ان میں ) روزے کا کیا حکم ہوگا ؟؟
وہ ممالک جو قطب شمالی وجنوبی  North and South Pole کے قریب واقع ہیں ان میں بعض مقامات پر دن کافی لمبا ہوتا ہے صبح صادق سے غروب کا کل وقت 23  گھنٹے سے بھی اوپر ہوجاتا ہے ان مقامات میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اتنا لمبا روزہ رکھیں یا اس کی کوئی اور صورت ہوگی ؟؟
جواب : دن چھوٹا بڑا ہونے سے نماز روزے میں کوئی اثر نہیں پڑتا دن بڑا ہونے کی صورت میں اگر چوبیس گھنٹے کے اندر غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کچھ کھانے پینے کا وقت مل جاتا ہو تو غروب تک روزہ رکھنا فرض ہے البتہ اس کا تحمل نہ ہو تو چھوٹے دنوں میں قضا رکھے، اوراگر غروب کے بعد بقدر ضرورت کھانے کا وقت نہ ہو یا چوبیس گھنٹے کے اندر غروب ہی نہ ہو تو اس میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنے یک گنجائش ہے :
1. قول شافعی رحمہ اللہ کے مطابق اس قریب تر علاقے میں جہاں غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کھانے ہینے کا وقت مل جاتا ہو اس کے مطابق عمل کرے ۔
2. ہر چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے صرف اتنے وقت کے لئے روزہ چھوڑا جائے جس میں بقد ضرورت کچھ کھا سکے ۔ ان دونوں اقوال میں نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔
3. دوسرے معمولی ایام میں روزے قضا رکھے ۔
4. چوبیس گھنٹے کے اندر غروب والے ایام میں سب سے آخری دن میں ابتدا وقت عصر سے جتنی دیر بعد غروب ہوا تھا، عصر سے اتنی دیر بعد افطار کرلے ۔
یہ آخری قول موافق استصحاب حال و حدیث دجال و اقرب الی قول الشافعی ہونے کے علاوہ اسہل (زیادہ آسان ) بھی ہے ۔
قطبین کے قریب سال بھر میں کسی بھی عام معمول کے مطابق چوبیس گھنٹے میں شب و روز پورے نہیں ہوتے ، اس مقام میں آخری دو اقوال پرعمل نہیں ہوسکتا لہذا وہاں پہلا اور دوسرا قول ہی عمل کے لئے متعین ہوگا اس کا تحمل نہ ہوتو قول شافعی کے مطابق قریب ترین علاقے کے چھوٹے دنوں میں ان کی مقدار کے مطابق روزے رکھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
بحوالہ : احسن افتاویٰ صفحہ 113  جلد 2

آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں دائیں جانب سویڈن کی ایک مسجد کے اوقات نماز دکھائے گئے ہیں ان اوقات کے مطابق مغرب سے فجر میں صرف 38  منٹ کا فرق ہے اور دن 23 گھنٹے اور 22 منٹ کا ہے۔


Sunday, June 12, 2016

اختلاف مطالع كب معتبر ہوتا ہے اور كب نہیں؟

فقہ حنفیہ کی معتبر فتاویٰ کی کتب میں اختلاف مطالع کے بارے میں کیا لکھا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟ اگر اختلاف مطالع کا اعتبار ہے تو پھر تو کوئی اشکال نہیں ، وہ عبارت ضرور لکھ دیجئے گا۔ اور اگر اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں تو پھر اشکال ہے کہ جب اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں تو ہندوستان اور پاکستان والے سعودی عرب کے ساتھ عید کیوں نہیں کرتے ؟

جواب # 48978

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 1701-1298/B=1/1435-U

ہماری شریعت میں قمری مہینہ کا ثبوت رویت ہلال پر ہے، حدیث شریف میں آیا ہے صُوموا لِرُوٴْیَتہ وأفطِروْا لِروٴیتہِ یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر ہی عید مناوٴ۔ فإن غُمَّ عَلَیکمُ الْہلالُ فأَکْملُوا ثلاثین، پس اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس دن کا مہینہ بناوٴ۔ اور اگر کہیں سے خبر موجب کے ذریعہ دو عادل شاہدوں کی شہادت آجائے تو اس کو تسلیم کرسکتے ہو۔ اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے یہی ہمار فقہی کتابوں میں لکھا ہوا ہے، لیکن مشاہدہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ہندوستان اورامریکہ، کناڈا میں اتنی لمبی مسافت ہے کہ ہمارے یہاں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے، ہمارے یہاں رات ہوتی ہے تو وہاں دن ہوتا ہے، لہٰذا اختلاف مطالع لابدی اور ضروری ہے لِکُلِّ بلدٍ رُوٴیَتُہم یعنی ہرملک والے اپنے یہاں کے رویت ہلال کے اعتبار سے عمل کریں گے اور کسی مقام پر جب دوسرے مقام سے خبر آئے تو اس وقت وہ خبر ماین جائے گی جب کہ وہ شرعی شہادت یعنی خبر موجب کے ذریعہ آئے ٹیلیفون، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی خبر معتبر نہیں۔ وہ بھی اس وقت مانی جائے گی جب کہ وہاں کی خبر ماننے سے ہمارے یہاں کا مہینہ 28 دن یا 31 دن کا نہ بنتا ہو۔ اگر باہر ملک کی خبر ماننے سے ہمارا مہینہ ایک دن کم یا ایک دن زیادہ کا ہوتا ہو تو پھر باہر کی خبر ہم تسلیم نہیں کریں گے، کیونکہ حدیث میں مہینہ ۲۹/ دن یا ۳۰ دن کا فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے۔ البتہ بلاد قریبہ میں اختلاف مطالع معتبر نہ ہوگا۔ بدائع الصنائع میں ہے: ہذا إذا کانت المسافة بین البلدین قریبة لا تختلف فیہا المطالع، فأما إذا کانت بعیدة فلا یلزم أحد البلدین حکم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فیعتبر فی أہل کل بلد مطالع بلدہم دون البلد الآخر․ (ج۲/ص۸۳) اور زیلعی میں ہے: والأشبہ أن یعتبر لأن کل قوم مخاطبون بما عندہم وانفصال الہلال عن شعاع الشمس یختلف باختلاف الأقطار، وکلما تحرکت الشمس درجة طلوع فجرٍ لقومٍ وطلوع شمس لآخر،وغروبٌ لبعض ونصفُ اللیل لغیرہم․ (زیلعي: ج۱/۳۲۱)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

عیدین اور رمضان کی تعیین میں شریعت کا ضابطہ

عیدین اور رمضان کی تعیین میں شریعت کا ضابطہ
احادیث کی روشنی میں

از: مفتی زین الاسلام قاسمی الہ آبادی‏، مفتی دارالعلوم، دیوبند

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12، جلد: 98 ‏، صفرالمظفر 1436 ہجری مطابق دسمبر 2014ء

 

                شریعتِ اسلام نے انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے سال میں دودن خوشی ومسرت کے لیے تجویز کیے ہیں؛ لیکن یہ ایام دنیا کے عام تہواروں کی طرح محض رسمی تہوار نہیں؛ بلکہ انعاما تِ خداوندی کی شکر گزاری کے ایام ہیں، اسلام نے ان کو عبادت کے ایام قرار دیاہے ، اِن سے متعلق شریعت کی مستقل تعلیمات وھدایات ہیں، اِن ایام کی ابتداء وانتہاء اور ان کومنانے کاطریقہ شریعت کی طرف سے متعین کردیا گیاہے، یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل وانعام ہے کہ اس نے خوشی کے لیے جن ایام کو منتخب فرمایا، اُس کو بھی ہمارے لیے عبادت بنادیا کہ ایک طرف انسان اپنی فطرت کے مطابق خوشی منائے اور دوسری طرف آخرت کے اجروثواب کو بھی حاصل کرے، اِس سے اسلام کی جامعیت وشمولیت کے ساتھ ساتھ اس کا دینِ فطرت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

                لیکن کوئی بھی عبادت اُس وقت عبادت بنے گی؛ جب کہ اُس کو اس طریقے پر ادا کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ الٰہی کے ذریعے بندوں کے لیے متعین فرمایا ہے۔ احکام واوامر کے جو اصول اور ضابطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرمائے ہیں ، اُن کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہی اصل بندگی ہے، عبادات کا مدار عقلِ انسانی پر نہیں؛ بلکہ وحیِ الٰہی کے مطابق اِطاعت وفرماں برداری پر ہے، اسی لیے شریعت نے بندے کو اس بات کا مکلف بھی نہیں بنایا ہے کہ وہ احکام خداوندی کو عقلی پیمانے پر جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرے، اِس سے بندگی کی روح پر آنچ آتی ہے، حقیقت میں اللہ تعالی ہی اپنے ہر حکم کی علل وحکمتوں سے واقف ہے، انسان کی ناقص عقل حکمِ الٰہی کی ساری حکمتوں کے ادراک سے قاصر ہے؛ چنانچہ فرض نمازوں کا پانچ کے عدد میں منحصر ہونا،روزہ کی ابتداء صبح صادق سے اور انتہا غروبِ آفتاب پر ہونا، فرض روزوں کے لیے بارہ مہینوں میں سے رمضان ہی کے مہینے کا متعین ہونا، وغیرہ وغیرہ احکام شرعیہ کے رازوں سے اللہ تعالی ہی کی ذات خوب واقف ہے۔

                رمضان ، عید اوربقرعید اِسلام میں وہ عبادتیں ہیں جن کی ابتداء اور انتہاء کی تعیین کو شریعتِ اسلام نے چاند سے متعلق کیاہے؛ لیکن چاند سے متعلق کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلے میں شریعت کے قوانین وضابطے کیاہیں ؟ اس کو سمجھنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ ان احکام کا چاند سے تعلق اُسی وقت معتبر ہوگا؛ جب کہ اس سلسلے میں شریعت کے مسلمہ اصول وضابطوں کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے بغیر یہ عبادتیں عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہونگی ۔

                افسوس کہ آج کل عبادتوں میں انسانی رایوں کی دخل اندازی کثرت سے ہونے لگی ہے، شریعت کا جو حکم بھی انسان کی ناقص عقل کے ناقص معیار پرنہ اتر سکے، اُس مسئلے میں بے جا تاویلات وتشریحات کی بھی جرأت ہونے لگی ہے، ترقی یافتہ شکلوں سے فائدہ اٹھانے کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصول وضوابط بھی مجروح کیے جانے لگے۔الأمان والحفیظ۔[1]

                بہرِحال ! چاند سے متعلق احکامِ شرعیہ کے حوالے سے پہلے چند مسلمہ ضابطے اور ان کی مختصر ضروری تشریحات ملاحظہ فرمائیں:

                (۱) شریعتِ اسلام نے جن معاملات کامدار چاند ہونے پر رکھاہے،اُس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں؛ بلکہ اُس کا قابلِ رویت ہونااور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔

                چاند سے متعلق شریعت کے مسلمہ ضابطوں میں یہ ضابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس ضابطہ کو صحیح طو رپر سمجھ لیا جائے تو چاند سے متعلق کسی بھی حکمِ شرعی میں شک وشبہ کی کوئی نوبت ہی نہ آئے، چاند سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند ہونا کس کو قراردیا اور نہ ہونا کس کو کہا؟ آیا چاند کا صرف افق پر موجود ہونا شرعی احکام میں کافی تسلیم کیا جائے گا یا عام انسانی آنکھوں سے دیکھنے پر اس کے ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں ارشاداتِ نبوی ملاحظہ فرمائیں!

                حدیث کی سب سے بڑی مستند کتاب جو اعتماد میں قرآن کے بعددوسرا درجہ رکھتی ہے یعنی: صحیح بخاری میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:

                لاَتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ وَلاَ تُفْطِرُوْا حتّٰی تَرَوْہُ فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہ․ (بخاری: ۱/۲۵۶)

                روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو؛ جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو حساب لگالو( یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)۔

                اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

                اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّ عِشْرُوْنَ لَیْلَةً، فَلاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِیْنَ․(صحیح بخاری۱/۲۵۶)

                مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کاہے؛ اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو ( شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔

                یہ دونوں حدیثیں حدیث کی دوسری سب مستند کتابوں میں بھی موجود ہیں جن پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ اور دونوں میں روزہ رکھنے اور عید کرنے کا مدار چاند کی رویت پر رکھا ہے۔ لفظ ”رویت“ عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی:”کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں“۔ اس کے سوا اگر کسی دوسرے معنی میں لیا جائے تو حقیقت نہیں مجاز ہے؛اس لیے حاصل اس ارشادِ نبوی کا یہ ہوا کہ تمام احکامِ شرعیہ جو چاند کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہیں، ان میں چاندکا ہونا یہ ہے کہ عام آنکھوں سے نظر آئے۔ معلو م ہوا کہ مدارِ احکام چاند کا افق پر وجود نہیں؛ بلکہ رویت ہے۔ اگر چاند افق پر موجود ہو؛ مگر کسی وجہ سے قابلِ رویت نہ ہو تو احکامِ شرعیہ میں اس وجود کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

                حدیث کے اس مفہو م کو اسی حدیث کے آخری جملہ نے اور زیادہ واضح کردیا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ اگر چاند تم سے مستور اور چھپا ہوا رہے یعنی: تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھر تم اس کے مکلّف نہیں کہ ریاضی کے حسابات سے چاند کے وجوداور پیدائش معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ یا آلاتِ رصدیہ اور دور بینوں کے ذریعہ اُس کا وجود دیکھو؛ بلکہ فرمایا:

                فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوْا الْعِدَّةَ ثَلاَثِیْنَ․

                یعنی: اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو تیس دن پورے کرکے مہینہ ختم سمجھو۔

                اس میں لفظ ”غمَّ“ خاص طورسے قابلِ نظر ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی عربی محاورہ کے اعتبار سے بحوالہ ”قاموس وشرح قاموس“ یہ ہیں:

                غُمَّ الْہِلَالُ عَلَی النَّاسِ غَمًّا اذا حَالَ دُوْنَ الْہِلاَلِ غَیْمٌ رَقِیضرٌ أو غَیْرُہ فَلَمْ یُر․ (تاج العروس شرح قاموس)

                لفظ ”غم الھلال علی الناس“ اُس وقت بولاجاتاہے؛ جب کہ ہلال کے درمیان کوئی بادل یا دوسری چیز حائل ہوجائے اور چاند دیکھا نہ جاسکے۔

                جس سے معلوم ہوا کہ چاند کا وجود خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرکے یہ حکم دیا ہے؛ کیونکہ مستور ہو جانے کے لیے موجود ہونا لازمی ہے ، جو چیز موجود ہی نہیں اس کو معدوم کہا جاتاہے ، محاورات میں اس کو مستور نہیں بولتے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ چاند کے مستو رہوجانے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی سبب پیش آئے ۔ بہرِحال جب نگاہوں سے مستور ہوگیا اور دیکھا نہ جاسکا تو حکمِ شرعی یہ ہے کہ روزہ وعیدوغیرہ میں اُس کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

                (۲)قرآن وحدیث میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا، لہٰذا جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو کہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ معتبر ماننے کے نتیجے میں مہینے کے دن اٹھائیس رہ جائیں یا اکتیس ہو جائیں، وہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو، وہاں اختلافِ مطالع غیر معتبر ہوگا۔

                (۳) ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ۔

                ترمذی شریف میں امام ترمذی نے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ”بابُ مَا جَاءَ لِکُلِّ أہْلِ بَلَدٍ رُوٴْیَتُہُمْ“ یعنی: ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ، پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے:

                ابن عباس کی والدہ ام الفضل نے کُریب کو (جو حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ تھے) کسی ضرورت سے حضرت معاویہکے پاس ملک شام بھیجا،کریب نے ام الفضل کا کام نمٹایا، ابھی وہ شام ہی میں تھے کہ رمضان کا چاند نظر آیا، چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا تھا (اور انھوں نے پہلا روزہ جمعہ کو رکھا تھا) پھر وہ مہینہ کے آخر میں مدینہ آئے ابنِ عباس نے دریافت کیا تم نے چاند کب دیکھاتھا؟ انھوں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا،ابنِ عباس نے پوچھاکیا تم نے خود جمعہ کی رات میں چاند دیکھا تھا (مسلم کی روایت میں ہے نعم، ہاں خود دیکھا تھا)لوگوں نے بھی دیکھاتھا، پس انھوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابنِ عباس نے فرمایا: مگر ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے، پس ہم برابر روزے رکھتے رہیں گے؛ تاآنکہ ہم تیس دن پورے کریں یا چاند دیکھ لیں،کریب نے پوچھا:کیا آپ کے لیے حضرت امیرمعاویہ کا چاند دیکھنا اور ان کاروزہ رکھنا کافی نہیں؟ابنِ عباس نے فرمایا:نہیں ہمیں رسول اللہ… نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (تحفة الالمعی) آگے امام ترمذی فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلیٰ ھٰذالْحَدِیثِ عِنْدَ أھْلِ الْعِلْمِ أنَّ لِکُلِّ أَھْلِ بَلَدٍ رُوٴیَتُھُمْ یعنی: تمام اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر جگہ کے لیے اسی جگہ کی روٴیت معتبرہوگی۔ (ترمذی شریف۱/۱۴۸)

                ترمذی شریف کی دوسری حدیث میں ہے: انَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اَلصُّوْمُ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَالْفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُوْنَ وَالأضْحٰی یَوْمَ تُضَحُّوْنَ (ترمذی شریف ۱/۱۵۰) یعنی رمضان، عیدالفطر اور عید الاضحی جماعت اور سواداعظم کے ساتھ ہے۔[2]

                (۴) عام طور پرروٴیتِ ہلال کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے شہادت کا معاملہ قراردیا ہے؛ البتہ رمضان کے چاند میں خبر کو کافی سمجھا ہے بشرطیکہ خبر دینے والا ثقہ مسلمان ہو، ترمذی ،ابوداوٴ، نسائی وغیرہ میں ایک اعرابی اور ابوداوٴد کی روایت میں حضرت ابن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے کہ صرف ایک ثقہ مسلمان کی خبر پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شروع کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان فرمادیا، نصابِ شہادت کو ضروری نہیں سمجھا رمضان کے علاوہ دوسرے ہرچاند کی شہادت کے لیے نصاب ِشہادت اور اس کی تمام شرائط کو ضروری قراردیا اور سب فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے، اور سنن دار قطنی میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلالِ عید کے لیے دوآدمیوں سے کم کی شہادت کافی نہیں قرار دی۔

                پھر شہادت کی ایک قسم تو یہ ہے کہ آدمی بچشم خود چاند دیکھنے کی گواہی دے ، دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شہادت پرشہادت دے، یہ ”شہادة علی الشہادة“ کہلاتی ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلان شہر کے قاضی کے سامنے شہادت پیش ہوئی، قاضی نے اس کا اعتبار کرکے شہر میں رمضان یا عید کا اعلان کردیا؛ یہ شہادت علی القضاء کہلاتی ہے۔

                 حاصل یہ ہواکہ جب کسی شہر میں عام طور پر چاند نظر نہ آئے تو چاند کے ثبوت کے لیے مذکورہ تین صورتیں شرعاً معتبر ہیں اور دوسرے شہر میں روٴیت ہلال کے ثبوت کے لیے کافی ہیں، (کبھی استفاضے کے ذریعے بھی روٴیت کا ثبوت ہوجاتا ہے، جس کی شرائط کتبِ فقہ میں مذکور ہیں؛ لیکن استفاضے کے ذریعے چاند کے ثبوت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ مہینے کا ۲۸ یا ۳۱ کا ہونا لازم نہ آئے) البتہ دور دراز ممالک سے اگر مذکورہ بالا طریقوں پر شہادت پہنچتی ہے، تو بعض فقہاء جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار ہوتا ہے ،وہ اس شہادت کوقابلِ عمل قرار نہیں دیتے اور جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہوتاہے، اُن کے نزدیک اس شہادت کے معتبر ہونے کے لیے مذکورہ نصوص کی روشنی میں ایک شرط یہ بھی ضروری ہوگی کہ اس شہادت کے قبو ل کرلینے سے مہینہ اٹھائیس یا اکتیس کا ہونا لازم نہ آئے، اگر ایسا ہوگا تو وہ شہادت معتبر نہ ہوگی۔

                چاند سے متعلق مذکورہ بالا شرعی ضابطوں کی روشنی میں یہ بات بغیر کسی شک وتردد کے کہی جاسکتی ہے کہ امسال یعنی ۱۴۳۵ھ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰/دن کا تھا ؛ کیونکہ ۲۹/ ذی قعدہ کو ملک کے کسی بھی علاقے سے رویت کی خبر موصول نہیں ہوئی اور تادمِ تحریر (۱۰،ذوالحجہ۱۴۳۵ھ) بھی کوئی خبر نہیں مل سکی ہے، لہٰذا ۲۹/ ذی قعدہ کو اگر کسی ذریعہ سے چاند کا افق پر موجود ہونا ثابت بھی ہوجائے، تب بھی پہلے ضابطے کی وجہ سے اس کو شرعاً غیر معتبر قرار دیا جائے گا ، نیز” سعودی عرب“ کی تاریخ ”ہندوستان“ میں رہنے والوں کے لیے شرعاً حجت نہ ہوگی ؛ اس لیے کہ ہر علاقے کے لیے اسی جگہ کی رویت شرعاً معتبر ہوتی ہے، جیسا کہ ضابطہ نمبر۲ میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے، اور امسال تو ”سعودی عرب“ کی تاریخ اور” ہندوستان“ کی تاریخ میں دودن کا فرق ہوگیا، ایسی صورت میں ”سعودی عرب“ کی روٴیت ”ہندوستان“ کے لیے اور بھی زیادہ غیر معتبر ہوگی ورنہ تو ”ہندوستان“ میں ذی قعدہ کے مہینے کا ۲۸/ دن کا ہونا لازم آئے گا، جونص قطعی کی رو سے ممنوع ہے۔

                اسی طرح اِس موقع پر احتیاط کی بات کہنا (مثلاً: بقرعید کے دو ہی دن قربانی کی جائے، تیسرے دن قربانی نہ کی جائے۔ وغیرہ) شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے، جب مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہو، اس میں کسی طرح کا کوئی شک نہ ہو تو ایسے موقع پر مسئلے کی ناواقفیت کی بناء پر احتیاط کی بات کرنا بلا وجہ لوگوں کو شک و شبہے میں ڈالنا ہے ۔

                حاصل یہ ہے کہ امسال ۱۴۳۵ھ مطابق۲۰۱۴/ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰ / دن کا تھا، جس کے مطابق ۱۰/ذی الحجہ یعنی ۶/ اکتوبر بروز دوشنبہ بقرعید تھی ، لہٰذا جن لوگوں نے امسال” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے ”ہندوستان“ میں دو روز قبل یعنی ۸/ذی الحجہ کو قربانی کی ہے، اُن کی قربانی درست نہیں ہوئی، ان کاعمل احادیثِ نبویہ کے صریح خلاف تھا، اُ ن کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ نمازیں بھی سعودی وقت کے مطابق ادا کرتے ہیں؟شبِ قدر، عاشورہ کی تعین بھی سعودی تاریخ سے کرتے ہیں ؟اگر وہ تمام شرعی اعمال میں سعودی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، تو اُن کا عمل شرعاً صحیح نہیں ہے اور اگر عید و بقرعید ہی میں ایسا کرتے ہیں، تو فرق کی وجہ کیا ہے۔

--------------------------------------------------
[1] اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، نہیں ، ہر گز نہیں، نئی ایجادات بھی اللہ کی نعمتیں ہیں ،ان سے وحشت و بیزاری نہ کوئی دین کا کام ہے، نہ عقل کا ؛ البتہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے میں شریعت کے حدود و قیود کو سامنے رکھنا ضروری ہے؛چنانچہ اُس وقت تک ان سے استفادہ جائز ہوگا؛ جب تک کہ ان کی وجہ سے شریعت پر کوئی آنچ نہ آئے، نئی ایجادات کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے گا، نہ کہ شریعت کو نئی ایجادات کی روشنی میں۔

[2] اس حدیث کی روشنی میں اس صورت کا حکم بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص جدہ سے تیس رمضان کو سحری کھا کر ہندوستان آیا، یہاں انتیسواں روزہ تھا اور شام کو چاند نظرنہیں آیا؛ اس لیے اگلے دن لوگوں نے تیسواں روزہ رکھا ؛ لیکن جدہ سے آنے والے کا اکتیسواں روزہ ہوجائے گا ، پھربھی اسے اس دن عید منانے کی اجازت نہیں؛ بلکہ عید اگلے دن مقامی سب مسلمانوں کے ساتھ منائے گا، یہ حکم مذکورہ حدیث سے ہی نکلاہے۔