Wednesday, June 15, 2016

طویل النہار مقامات میں روزے کاحکم

طویل النہار مقامات میں ( یعنی جن علاقوں میں دن کافی لمبا ہو ان میں ) روزے کا کیا حکم ہوگا ؟؟
وہ ممالک جو قطب شمالی وجنوبی  North and South Pole کے قریب واقع ہیں ان میں بعض مقامات پر دن کافی لمبا ہوتا ہے صبح صادق سے غروب کا کل وقت 23  گھنٹے سے بھی اوپر ہوجاتا ہے ان مقامات میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اتنا لمبا روزہ رکھیں یا اس کی کوئی اور صورت ہوگی ؟؟
جواب : دن چھوٹا بڑا ہونے سے نماز روزے میں کوئی اثر نہیں پڑتا دن بڑا ہونے کی صورت میں اگر چوبیس گھنٹے کے اندر غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کچھ کھانے پینے کا وقت مل جاتا ہو تو غروب تک روزہ رکھنا فرض ہے البتہ اس کا تحمل نہ ہو تو چھوٹے دنوں میں قضا رکھے، اوراگر غروب کے بعد بقدر ضرورت کھانے کا وقت نہ ہو یا چوبیس گھنٹے کے اندر غروب ہی نہ ہو تو اس میں مختلف اقوال ہیں ان میں سے ہر ایک پر عمل کرنے یک گنجائش ہے :
1. قول شافعی رحمہ اللہ کے مطابق اس قریب تر علاقے میں جہاں غروب آفتاب کے بعد بقدر ضرورت کھانے ہینے کا وقت مل جاتا ہو اس کے مطابق عمل کرے ۔
2. ہر چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے صرف اتنے وقت کے لئے روزہ چھوڑا جائے جس میں بقد ضرورت کچھ کھا سکے ۔ ان دونوں اقوال میں نتیجے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ۔
3. دوسرے معمولی ایام میں روزے قضا رکھے ۔
4. چوبیس گھنٹے کے اندر غروب والے ایام میں سب سے آخری دن میں ابتدا وقت عصر سے جتنی دیر بعد غروب ہوا تھا، عصر سے اتنی دیر بعد افطار کرلے ۔
یہ آخری قول موافق استصحاب حال و حدیث دجال و اقرب الی قول الشافعی ہونے کے علاوہ اسہل (زیادہ آسان ) بھی ہے ۔
قطبین کے قریب سال بھر میں کسی بھی عام معمول کے مطابق چوبیس گھنٹے میں شب و روز پورے نہیں ہوتے ، اس مقام میں آخری دو اقوال پرعمل نہیں ہوسکتا لہذا وہاں پہلا اور دوسرا قول ہی عمل کے لئے متعین ہوگا اس کا تحمل نہ ہوتو قول شافعی کے مطابق قریب ترین علاقے کے چھوٹے دنوں میں ان کی مقدار کے مطابق روزے رکھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم۔
بحوالہ : احسن افتاویٰ صفحہ 113  جلد 2

آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں دائیں جانب سویڈن کی ایک مسجد کے اوقات نماز دکھائے گئے ہیں ان اوقات کے مطابق مغرب سے فجر میں صرف 38  منٹ کا فرق ہے اور دن 23 گھنٹے اور 22 منٹ کا ہے۔


Sunday, June 12, 2016

اختلاف مطالع كب معتبر ہوتا ہے اور كب نہیں؟

فقہ حنفیہ کی معتبر فتاویٰ کی کتب میں اختلاف مطالع کے بارے میں کیا لکھا ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟ اگر اختلاف مطالع کا اعتبار ہے تو پھر تو کوئی اشکال نہیں ، وہ عبارت ضرور لکھ دیجئے گا۔ اور اگر اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں تو پھر اشکال ہے کہ جب اختلاف مطالع کا اعتبار نہیں تو ہندوستان اور پاکستان والے سعودی عرب کے ساتھ عید کیوں نہیں کرتے ؟

جواب # 48978

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 1701-1298/B=1/1435-U

ہماری شریعت میں قمری مہینہ کا ثبوت رویت ہلال پر ہے، حدیث شریف میں آیا ہے صُوموا لِرُوٴْیَتہ وأفطِروْا لِروٴیتہِ یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر ہی عید مناوٴ۔ فإن غُمَّ عَلَیکمُ الْہلالُ فأَکْملُوا ثلاثین، پس اگر چاند نظر نہ آئے تو تیس دن کا مہینہ بناوٴ۔ اور اگر کہیں سے خبر موجب کے ذریعہ دو عادل شاہدوں کی شہادت آجائے تو اس کو تسلیم کرسکتے ہو۔ اختلاف مطالع معتبر نہیں ہے یہی ہمار فقہی کتابوں میں لکھا ہوا ہے، لیکن مشاہدہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ہندوستان اورامریکہ، کناڈا میں اتنی لمبی مسافت ہے کہ ہمارے یہاں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے، ہمارے یہاں رات ہوتی ہے تو وہاں دن ہوتا ہے، لہٰذا اختلاف مطالع لابدی اور ضروری ہے لِکُلِّ بلدٍ رُوٴیَتُہم یعنی ہرملک والے اپنے یہاں کے رویت ہلال کے اعتبار سے عمل کریں گے اور کسی مقام پر جب دوسرے مقام سے خبر آئے تو اس وقت وہ خبر ماین جائے گی جب کہ وہ شرعی شہادت یعنی خبر موجب کے ذریعہ آئے ٹیلیفون، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی خبر معتبر نہیں۔ وہ بھی اس وقت مانی جائے گی جب کہ وہاں کی خبر ماننے سے ہمارے یہاں کا مہینہ 28 دن یا 31 دن کا نہ بنتا ہو۔ اگر باہر ملک کی خبر ماننے سے ہمارا مہینہ ایک دن کم یا ایک دن زیادہ کا ہوتا ہو تو پھر باہر کی خبر ہم تسلیم نہیں کریں گے، کیونکہ حدیث میں مہینہ ۲۹/ دن یا ۳۰ دن کا فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا بلاد بعیدہ میں اختلاف مطالع معتبر ہے۔ البتہ بلاد قریبہ میں اختلاف مطالع معتبر نہ ہوگا۔ بدائع الصنائع میں ہے: ہذا إذا کانت المسافة بین البلدین قریبة لا تختلف فیہا المطالع، فأما إذا کانت بعیدة فلا یلزم أحد البلدین حکم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فیعتبر فی أہل کل بلد مطالع بلدہم دون البلد الآخر․ (ج۲/ص۸۳) اور زیلعی میں ہے: والأشبہ أن یعتبر لأن کل قوم مخاطبون بما عندہم وانفصال الہلال عن شعاع الشمس یختلف باختلاف الأقطار، وکلما تحرکت الشمس درجة طلوع فجرٍ لقومٍ وطلوع شمس لآخر،وغروبٌ لبعض ونصفُ اللیل لغیرہم․ (زیلعي: ج۱/۳۲۱)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

عیدین اور رمضان کی تعیین میں شریعت کا ضابطہ

عیدین اور رمضان کی تعیین میں شریعت کا ضابطہ
احادیث کی روشنی میں

از: مفتی زین الاسلام قاسمی الہ آبادی‏، مفتی دارالعلوم، دیوبند

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 12، جلد: 98 ‏، صفرالمظفر 1436 ہجری مطابق دسمبر 2014ء

 

                شریعتِ اسلام نے انسانی فطرت کا لحاظ کرتے ہوئے سال میں دودن خوشی ومسرت کے لیے تجویز کیے ہیں؛ لیکن یہ ایام دنیا کے عام تہواروں کی طرح محض رسمی تہوار نہیں؛ بلکہ انعاما تِ خداوندی کی شکر گزاری کے ایام ہیں، اسلام نے ان کو عبادت کے ایام قرار دیاہے ، اِن سے متعلق شریعت کی مستقل تعلیمات وھدایات ہیں، اِن ایام کی ابتداء وانتہاء اور ان کومنانے کاطریقہ شریعت کی طرف سے متعین کردیا گیاہے، یہ اللہ کا کتنا بڑا فضل وانعام ہے کہ اس نے خوشی کے لیے جن ایام کو منتخب فرمایا، اُس کو بھی ہمارے لیے عبادت بنادیا کہ ایک طرف انسان اپنی فطرت کے مطابق خوشی منائے اور دوسری طرف آخرت کے اجروثواب کو بھی حاصل کرے، اِس سے اسلام کی جامعیت وشمولیت کے ساتھ ساتھ اس کا دینِ فطرت ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔

                لیکن کوئی بھی عبادت اُس وقت عبادت بنے گی؛ جب کہ اُس کو اس طریقے پر ادا کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیِ الٰہی کے ذریعے بندوں کے لیے متعین فرمایا ہے۔ احکام واوامر کے جو اصول اور ضابطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرمائے ہیں ، اُن کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہی اصل بندگی ہے، عبادات کا مدار عقلِ انسانی پر نہیں؛ بلکہ وحیِ الٰہی کے مطابق اِطاعت وفرماں برداری پر ہے، اسی لیے شریعت نے بندے کو اس بات کا مکلف بھی نہیں بنایا ہے کہ وہ احکام خداوندی کو عقلی پیمانے پر جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کرے، اِس سے بندگی کی روح پر آنچ آتی ہے، حقیقت میں اللہ تعالی ہی اپنے ہر حکم کی علل وحکمتوں سے واقف ہے، انسان کی ناقص عقل حکمِ الٰہی کی ساری حکمتوں کے ادراک سے قاصر ہے؛ چنانچہ فرض نمازوں کا پانچ کے عدد میں منحصر ہونا،روزہ کی ابتداء صبح صادق سے اور انتہا غروبِ آفتاب پر ہونا، فرض روزوں کے لیے بارہ مہینوں میں سے رمضان ہی کے مہینے کا متعین ہونا، وغیرہ وغیرہ احکام شرعیہ کے رازوں سے اللہ تعالی ہی کی ذات خوب واقف ہے۔

                رمضان ، عید اوربقرعید اِسلام میں وہ عبادتیں ہیں جن کی ابتداء اور انتہاء کی تعیین کو شریعتِ اسلام نے چاند سے متعلق کیاہے؛ لیکن چاند سے متعلق کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس سلسلے میں شریعت کے قوانین وضابطے کیاہیں ؟ اس کو سمجھنا ضروری ہے؛ اس لیے کہ ان احکام کا چاند سے تعلق اُسی وقت معتبر ہوگا؛ جب کہ اس سلسلے میں شریعت کے مسلمہ اصول وضابطوں کو ملحوظ رکھا جائے، اس کے بغیر یہ عبادتیں عبادت کہلانے کی مستحق نہیں ہونگی ۔

                افسوس کہ آج کل عبادتوں میں انسانی رایوں کی دخل اندازی کثرت سے ہونے لگی ہے، شریعت کا جو حکم بھی انسان کی ناقص عقل کے ناقص معیار پرنہ اتر سکے، اُس مسئلے میں بے جا تاویلات وتشریحات کی بھی جرأت ہونے لگی ہے، ترقی یافتہ شکلوں سے فائدہ اٹھانے کے نام پر اسلام کے مسلمہ اصول وضوابط بھی مجروح کیے جانے لگے۔الأمان والحفیظ۔[1]

                بہرِحال ! چاند سے متعلق احکامِ شرعیہ کے حوالے سے پہلے چند مسلمہ ضابطے اور ان کی مختصر ضروری تشریحات ملاحظہ فرمائیں:

                (۱) شریعتِ اسلام نے جن معاملات کامدار چاند ہونے پر رکھاہے،اُس سے مراد چاند کا افق پر موجود ہونا نہیں؛ بلکہ اُس کا قابلِ رویت ہونااور عام نگاہوں سے دیکھا جانا ہے۔

                چاند سے متعلق شریعت کے مسلمہ ضابطوں میں یہ ضابطہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اگر اس ضابطہ کو صحیح طو رپر سمجھ لیا جائے تو چاند سے متعلق کسی بھی حکمِ شرعی میں شک وشبہ کی کوئی نوبت ہی نہ آئے، چاند سے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند ہونا کس کو قراردیا اور نہ ہونا کس کو کہا؟ آیا چاند کا صرف افق پر موجود ہونا شرعی احکام میں کافی تسلیم کیا جائے گا یا عام انسانی آنکھوں سے دیکھنے پر اس کے ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا؟ اس مسئلے میں ارشاداتِ نبوی ملاحظہ فرمائیں!

                حدیث کی سب سے بڑی مستند کتاب جو اعتماد میں قرآن کے بعددوسرا درجہ رکھتی ہے یعنی: صحیح بخاری میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:

                لاَتَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ وَلاَ تُفْطِرُوْا حتّٰی تَرَوْہُ فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوْا لَہ․ (بخاری: ۱/۲۵۶)

                روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور عید کے لیے افطار اس وقت تک نہ کرو؛ جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو حساب لگالو( یعنی حساب سے تیس دن پورے کرلو)۔

                اسی کی ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔

                اَلشَّہْرُ تِسْعٌ وَّ عِشْرُوْنَ لَیْلَةً، فَلاَ تَصُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْہُ فَاِنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاَثِیْنَ․(صحیح بخاری۱/۲۵۶)

                مہینہ (یقینی) انتیس راتوں کاہے؛ اس لیے روزہ اس وقت تک نہ رکھو جب تک (رمضان کا) چاند نہ دیکھ لو۔ پھر اگر تم پر چاند مستور ہوجائے تو ( شعبان) کی تعداد تیس دن پورے کرکے رمضان سمجھو۔

                یہ دونوں حدیثیں حدیث کی دوسری سب مستند کتابوں میں بھی موجود ہیں جن پر کسی محدث نے کلام نہیں کیا۔ اور دونوں میں روزہ رکھنے اور عید کرنے کا مدار چاند کی رویت پر رکھا ہے۔ لفظ ”رویت“ عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کے معنی:”کسی چیز کو آنکھوں سے دیکھنے کے ہیں“۔ اس کے سوا اگر کسی دوسرے معنی میں لیا جائے تو حقیقت نہیں مجاز ہے؛اس لیے حاصل اس ارشادِ نبوی کا یہ ہوا کہ تمام احکامِ شرعیہ جو چاند کے ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہیں، ان میں چاندکا ہونا یہ ہے کہ عام آنکھوں سے نظر آئے۔ معلو م ہوا کہ مدارِ احکام چاند کا افق پر وجود نہیں؛ بلکہ رویت ہے۔ اگر چاند افق پر موجود ہو؛ مگر کسی وجہ سے قابلِ رویت نہ ہو تو احکامِ شرعیہ میں اس وجود کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

                حدیث کے اس مفہو م کو اسی حدیث کے آخری جملہ نے اور زیادہ واضح کردیا، جس میں یہ ارشاد ہے کہ اگر چاند تم سے مستور اور چھپا ہوا رہے یعنی: تمہاری آنکھیں اس کو نہ دیکھ سکیں تو پھر تم اس کے مکلّف نہیں کہ ریاضی کے حسابات سے چاند کے وجوداور پیدائش معلوم کرو اور اس پر عمل کرو۔ یا آلاتِ رصدیہ اور دور بینوں کے ذریعہ اُس کا وجود دیکھو؛ بلکہ فرمایا:

                فانْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَأکْمِلُوْا الْعِدَّةَ ثَلاَثِیْنَ․

                یعنی: اگر چاند تم پر مستور ہو جائے تو تیس دن پورے کرکے مہینہ ختم سمجھو۔

                اس میں لفظ ”غمَّ“ خاص طورسے قابلِ نظر ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی عربی محاورہ کے اعتبار سے بحوالہ ”قاموس وشرح قاموس“ یہ ہیں:

                غُمَّ الْہِلَالُ عَلَی النَّاسِ غَمًّا اذا حَالَ دُوْنَ الْہِلاَلِ غَیْمٌ رَقِیضرٌ أو غَیْرُہ فَلَمْ یُر․ (تاج العروس شرح قاموس)

                لفظ ”غم الھلال علی الناس“ اُس وقت بولاجاتاہے؛ جب کہ ہلال کے درمیان کوئی بادل یا دوسری چیز حائل ہوجائے اور چاند دیکھا نہ جاسکے۔

                جس سے معلوم ہوا کہ چاند کا وجود خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کرکے یہ حکم دیا ہے؛ کیونکہ مستور ہو جانے کے لیے موجود ہونا لازمی ہے ، جو چیز موجود ہی نہیں اس کو معدوم کہا جاتاہے ، محاورات میں اس کو مستور نہیں بولتے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ چاند کے مستو رہوجانے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی سبب پیش آئے ۔ بہرِحال جب نگاہوں سے مستور ہوگیا اور دیکھا نہ جاسکا تو حکمِ شرعی یہ ہے کہ روزہ وعیدوغیرہ میں اُس کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

                (۲)قرآن وحدیث میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا، لہٰذا جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو کہ ایک جگہ کی رویت دوسری جگہ معتبر ماننے کے نتیجے میں مہینے کے دن اٹھائیس رہ جائیں یا اکتیس ہو جائیں، وہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو، وہاں اختلافِ مطالع غیر معتبر ہوگا۔

                (۳) ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ۔

                ترمذی شریف میں امام ترمذی نے مستقل ایک باب قائم کیا ہے ”بابُ مَا جَاءَ لِکُلِّ أہْلِ بَلَدٍ رُوٴْیَتُہُمْ“ یعنی: ہر جگہ کے لیے اُسی جگہ کی روٴیت معتبر ہوگی ، پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے:

                ابن عباس کی والدہ ام الفضل نے کُریب کو (جو حضرت ابن عباس کے آزاد کردہ تھے) کسی ضرورت سے حضرت معاویہکے پاس ملک شام بھیجا،کریب نے ام الفضل کا کام نمٹایا، ابھی وہ شام ہی میں تھے کہ رمضان کا چاند نظر آیا، چاند جمعہ کی رات میں نظر آیا تھا (اور انھوں نے پہلا روزہ جمعہ کو رکھا تھا) پھر وہ مہینہ کے آخر میں مدینہ آئے ابنِ عباس نے دریافت کیا تم نے چاند کب دیکھاتھا؟ انھوں نے کہا ہم نے جمعہ کی رات چاند دیکھا تھا،ابنِ عباس نے پوچھاکیا تم نے خود جمعہ کی رات میں چاند دیکھا تھا (مسلم کی روایت میں ہے نعم، ہاں خود دیکھا تھا)لوگوں نے بھی دیکھاتھا، پس انھوں نے روزہ رکھا اور امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابنِ عباس نے فرمایا: مگر ہم نے سنیچر کی رات میں چاند دیکھا ہے، پس ہم برابر روزے رکھتے رہیں گے؛ تاآنکہ ہم تیس دن پورے کریں یا چاند دیکھ لیں،کریب نے پوچھا:کیا آپ کے لیے حضرت امیرمعاویہ کا چاند دیکھنا اور ان کاروزہ رکھنا کافی نہیں؟ابنِ عباس نے فرمایا:نہیں ہمیں رسول اللہ… نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (تحفة الالمعی) آگے امام ترمذی فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلیٰ ھٰذالْحَدِیثِ عِنْدَ أھْلِ الْعِلْمِ أنَّ لِکُلِّ أَھْلِ بَلَدٍ رُوٴیَتُھُمْ یعنی: تمام اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر جگہ کے لیے اسی جگہ کی روٴیت معتبرہوگی۔ (ترمذی شریف۱/۱۴۸)

                ترمذی شریف کی دوسری حدیث میں ہے: انَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اَلصُّوْمُ یَوْمَ تَصُوْمُوْنَ وَالْفِطْرُ یَوْمَ تُفْطِرُوْنَ وَالأضْحٰی یَوْمَ تُضَحُّوْنَ (ترمذی شریف ۱/۱۵۰) یعنی رمضان، عیدالفطر اور عید الاضحی جماعت اور سواداعظم کے ساتھ ہے۔[2]

                (۴) عام طور پرروٴیتِ ہلال کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے شہادت کا معاملہ قراردیا ہے؛ البتہ رمضان کے چاند میں خبر کو کافی سمجھا ہے بشرطیکہ خبر دینے والا ثقہ مسلمان ہو، ترمذی ،ابوداوٴ، نسائی وغیرہ میں ایک اعرابی اور ابوداوٴد کی روایت میں حضرت ابن عمر کے واقعہ سے ثابت ہے کہ صرف ایک ثقہ مسلمان کی خبر پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شروع کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان فرمادیا، نصابِ شہادت کو ضروری نہیں سمجھا رمضان کے علاوہ دوسرے ہرچاند کی شہادت کے لیے نصاب ِشہادت اور اس کی تمام شرائط کو ضروری قراردیا اور سب فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے، اور سنن دار قطنی میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلالِ عید کے لیے دوآدمیوں سے کم کی شہادت کافی نہیں قرار دی۔

                پھر شہادت کی ایک قسم تو یہ ہے کہ آدمی بچشم خود چاند دیکھنے کی گواہی دے ، دوسری قسم یہ ہے کہ کسی شہادت پرشہادت دے، یہ ”شہادة علی الشہادة“ کہلاتی ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلان شہر کے قاضی کے سامنے شہادت پیش ہوئی، قاضی نے اس کا اعتبار کرکے شہر میں رمضان یا عید کا اعلان کردیا؛ یہ شہادت علی القضاء کہلاتی ہے۔

                 حاصل یہ ہواکہ جب کسی شہر میں عام طور پر چاند نظر نہ آئے تو چاند کے ثبوت کے لیے مذکورہ تین صورتیں شرعاً معتبر ہیں اور دوسرے شہر میں روٴیت ہلال کے ثبوت کے لیے کافی ہیں، (کبھی استفاضے کے ذریعے بھی روٴیت کا ثبوت ہوجاتا ہے، جس کی شرائط کتبِ فقہ میں مذکور ہیں؛ لیکن استفاضے کے ذریعے چاند کے ثبوت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ مہینے کا ۲۸ یا ۳۱ کا ہونا لازم نہ آئے) البتہ دور دراز ممالک سے اگر مذکورہ بالا طریقوں پر شہادت پہنچتی ہے، تو بعض فقہاء جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار ہوتا ہے ،وہ اس شہادت کوقابلِ عمل قرار نہیں دیتے اور جن کے نزدیک اختلافِ مطالع کا اعتبار نہیں ہوتاہے، اُن کے نزدیک اس شہادت کے معتبر ہونے کے لیے مذکورہ نصوص کی روشنی میں ایک شرط یہ بھی ضروری ہوگی کہ اس شہادت کے قبو ل کرلینے سے مہینہ اٹھائیس یا اکتیس کا ہونا لازم نہ آئے، اگر ایسا ہوگا تو وہ شہادت معتبر نہ ہوگی۔

                چاند سے متعلق مذکورہ بالا شرعی ضابطوں کی روشنی میں یہ بات بغیر کسی شک وتردد کے کہی جاسکتی ہے کہ امسال یعنی ۱۴۳۵ھ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰/دن کا تھا ؛ کیونکہ ۲۹/ ذی قعدہ کو ملک کے کسی بھی علاقے سے رویت کی خبر موصول نہیں ہوئی اور تادمِ تحریر (۱۰،ذوالحجہ۱۴۳۵ھ) بھی کوئی خبر نہیں مل سکی ہے، لہٰذا ۲۹/ ذی قعدہ کو اگر کسی ذریعہ سے چاند کا افق پر موجود ہونا ثابت بھی ہوجائے، تب بھی پہلے ضابطے کی وجہ سے اس کو شرعاً غیر معتبر قرار دیا جائے گا ، نیز” سعودی عرب“ کی تاریخ ”ہندوستان“ میں رہنے والوں کے لیے شرعاً حجت نہ ہوگی ؛ اس لیے کہ ہر علاقے کے لیے اسی جگہ کی رویت شرعاً معتبر ہوتی ہے، جیسا کہ ضابطہ نمبر۲ میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے، اور امسال تو ”سعودی عرب“ کی تاریخ اور” ہندوستان“ کی تاریخ میں دودن کا فرق ہوگیا، ایسی صورت میں ”سعودی عرب“ کی روٴیت ”ہندوستان“ کے لیے اور بھی زیادہ غیر معتبر ہوگی ورنہ تو ”ہندوستان“ میں ذی قعدہ کے مہینے کا ۲۸/ دن کا ہونا لازم آئے گا، جونص قطعی کی رو سے ممنوع ہے۔

                اسی طرح اِس موقع پر احتیاط کی بات کہنا (مثلاً: بقرعید کے دو ہی دن قربانی کی جائے، تیسرے دن قربانی نہ کی جائے۔ وغیرہ) شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے، جب مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہو، اس میں کسی طرح کا کوئی شک نہ ہو تو ایسے موقع پر مسئلے کی ناواقفیت کی بناء پر احتیاط کی بات کرنا بلا وجہ لوگوں کو شک و شبہے میں ڈالنا ہے ۔

                حاصل یہ ہے کہ امسال ۱۴۳۵ھ مطابق۲۰۱۴/ میں ذی قعدہ کا مہینہ ۳۰ / دن کا تھا، جس کے مطابق ۱۰/ذی الحجہ یعنی ۶/ اکتوبر بروز دوشنبہ بقرعید تھی ، لہٰذا جن لوگوں نے امسال” سعودی عرب“ کی تاریخ کا اعتبار کرتے ہوئے ”ہندوستان“ میں دو روز قبل یعنی ۸/ذی الحجہ کو قربانی کی ہے، اُن کی قربانی درست نہیں ہوئی، ان کاعمل احادیثِ نبویہ کے صریح خلاف تھا، اُ ن کو غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ نمازیں بھی سعودی وقت کے مطابق ادا کرتے ہیں؟شبِ قدر، عاشورہ کی تعین بھی سعودی تاریخ سے کرتے ہیں ؟اگر وہ تمام شرعی اعمال میں سعودی تاریخ کا اعتبار کرتے ہیں، تو اُن کا عمل شرعاً صحیح نہیں ہے اور اگر عید و بقرعید ہی میں ایسا کرتے ہیں، تو فرق کی وجہ کیا ہے۔

--------------------------------------------------
[1] اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، نہیں ، ہر گز نہیں، نئی ایجادات بھی اللہ کی نعمتیں ہیں ،ان سے وحشت و بیزاری نہ کوئی دین کا کام ہے، نہ عقل کا ؛ البتہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانے میں شریعت کے حدود و قیود کو سامنے رکھنا ضروری ہے؛چنانچہ اُس وقت تک ان سے استفادہ جائز ہوگا؛ جب تک کہ ان کی وجہ سے شریعت پر کوئی آنچ نہ آئے، نئی ایجادات کو شریعت کی روشنی میں پرکھا جائے گا، نہ کہ شریعت کو نئی ایجادات کی روشنی میں۔

[2] اس حدیث کی روشنی میں اس صورت کا حکم بھی معلوم ہو گیا کہ اگر کوئی شخص جدہ سے تیس رمضان کو سحری کھا کر ہندوستان آیا، یہاں انتیسواں روزہ تھا اور شام کو چاند نظرنہیں آیا؛ اس لیے اگلے دن لوگوں نے تیسواں روزہ رکھا ؛ لیکن جدہ سے آنے والے کا اکتیسواں روزہ ہوجائے گا ، پھربھی اسے اس دن عید منانے کی اجازت نہیں؛ بلکہ عید اگلے دن مقامی سب مسلمانوں کے ساتھ منائے گا، یہ حکم مذکورہ حدیث سے ہی نکلاہے۔

Thursday, June 9, 2016

روزہ کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے کا حکم

روزہ کی حالت میں کان میں دوا ڈالنے کا حکم
     الحمد للہ رب العالمین ، والصلوۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ومولانا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد
     یہ مسئلہ کافی عرصہ سے عالم اسلا م کی مختلف علمی مجالس میں زیر بحث آرہا ہے کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ بر صغیر کے مختلف دینی مدارس اور دارالافتاء میں اس سے متعلق سوالات بھی آرہے ہیں، اور بعض دینی جرائد میں معاصر علماء کے قلم سے اس موضوع پر چند مضامین اور بعض آراء بھی سامنے آئی ہیں۔
     موضوع کی اہمیت کے پیش نظر جامعہ دار العلوم کراچی کے اکابر علماء اوردار الافتاء کے اہم رفقاء پر مشتمل ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ کا اجلاس منعقد ہوا۔ ۔ ۔۔انفرادی و اجتماعی غور و فکر اور فقہاء  ؒ کی عبارات کے پیش نظر کان کے بارے میں تین صورتیں واضح طور پر سامنے آگئیں:
    الف: …روزہ دار کے کان میں اگر پانی خود بخود چلا جائے مثلا غسل ‘ بارش یا حوض میں غوطہ لگانے وغیرہ کے دوران تو تمام فقہاے احناف بلکہ مذاہب اربعہ کے جمہور فقہاء کے نزدیک اس سے ورزہ فاسد نہیں ہوتا۔اس مسئلہ کی دلیل کے طور پر سیدنا انس بن مالک  ؓ کا عمل بھی صحیح بخاری میںموجود ہے۔ اور فقہی عبارات بھی اس بارے میں معروف ہیں ۔
     ب:…اگر پانی کان میں خود ڈالا گیا ہو ‘ تو اس میں فقہاء احناف ؒ کے دونوں قول ہیں ، ایک قول میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ہدایہ ‘ تبیین الحقائق ‘ محیط‘ ولوالجیہ اور در مختار میں اسے ہی مختار قرار دیا گیا ہے۔ حضرت تھانوی ؒ نے بھی’’ بہشتی زیور‘‘ میں یہی قول اختیار کیا ہے۔ جبکہ فتاوی قاضی خان ‘ بزازیہ‘ فتح القدیر اور برہان میں پانی داخل کرنے سے روزہ ٹوٹنے کا حکم لگایا گیا ہے۔
     ج:…اگر کان میں دوا ڈالی جائے تو مذاہب اربعہ کے جمہور فقہاء کی نصوص کے مطابق روزہ ٹوٹ جائے گا ، لیکن مالکیہ اور شافعیہ نے فساد صوم کا قول اس شرط کے ساتھ کیا کہ پانی دماغ یا حلق تک پہنچ جائے ‘ اور حنفیہ نے یوں کہا ہے کہ چونکہ کان کے ذریعہ پانی دماغ تک پہنچ ہی جاتا ہے اس لئے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ ا س مسئلہ پر بھی فقہی عبارات تمام معتبر کتابوں میں موجود ہیں۔
     البتہ یہ بات کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ کیوں فاسد ہوگا؟ کسی بھی فقہی کتاب میں اس کی کوئی دلیل حدیث مرفوع ‘ موقوف یا مقطوع کی صورت میں بیان نہیں کی گئی۔ا س کی فقہی وجہ بیان کرنے سے بھی بعض عبارات میں تو سکوت کیا گیا ہے ‘اور بعض میں ’’ الفطر ممادخل ، لا مما خرج ‘‘ کو بنیاد بنا یا گیا ہے ، اور بعض عبارات میں یہ تصریح ہے کہ کان میں دوا ڈالنے سے اگر دوا حلق میں جائے تو روزہ فاسد ہوگا ‘ ورنہ نہیں۔
     اور بعض عبارات بلکہ کئی عبارات میں ا س کی صراحت ہے کہ کان میںدوا ڈالنے سے دوا دماغ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ، اور دماغ یا تو بعض ائمہ کے نزدیک خود جوف معتبر ہے ، اس لئے دماغ میں دوا پہنچنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اور بعض دوسرے حضرات کے نزدیک دماغ اس لئے جوف معتبر ہے کہ دماغ سے حلق کی طرف راستہ ہونے کی بنا پر دوا حلق یا معدے میں جائے گی ، اور حلق یا معدے میں جانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
     اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء ؒ کے نزدیک بھی کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ دوا جوف معتبر یعنی دماغ یا حلق تک پہنچ جاتی ہے، ’’ وھو الاصل فی الافطار‘‘۔
     اب رہی یہ بات کہ کان میں دوا ڈالنے سے کیا دوا‘ واقعۃً حلق یا دماغ کی طرف کسی منفذ کے ذریعہ منتقل ہوتی ہے یا نہیں؟ تو یہ مسئلہ فقہ سے تعلق نہیں رکھتا، بلکہ طب اور فن ’’ تشریح الابدان‘‘ سے تعلق رکھتا ہے، اور اس بارے میں اطباء کے متفق علیہ قول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ قرآن و سنت کی نصوص سرے سے موجود ہی نہ ہوں اور فقہاء کے اقوال خود محتمل ہوں ، اور ان میں بھی فقہاء نے خود تشریح البدن کو مدار حکم بنایا ہو۔
     چنانچہ خود فقہاء ؒ نے اس کی صراحت فرمادی ہے کہ ان جیسے مسائل ( تشریح البدن) کا تعلق فقہ سے نہیں( بلکہ طب سے ہے) یعنی ان جیسے مسائل میں نص شرعی نہ ہونے کی بنا پر فقہاء کی آراء تشریح اعضاء کے بارے میں اطباء کی آراء سے ماخوذ یا ان پر مبنی ہیں ، جس کی چند نظیریں درج ذیل ہیں:
     ۱:…فقہاء احناف کے درمیان ’’ اقطار فی الاحلیل ‘‘کے مفسد صوم ہونے میں اختلاف ہے، اور اس کی وجہ کوئی نص یا شرعی دلیل نہیں ، بلکہ یہ اختلاف اس عضوکی تشریح میں اختلاف پر مبنی ہے۔
     ۲:…حضرات فقہاء شوافع کے درمیان خود کان کے مسئلہ میں دو قول ہیں ، بعض حضرات نے ’’  اقطار فی الاذن‘‘ کو مفسد صوم قرار نہیں دیا ، اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ کان سے حلق یا دماغ تک کوئی منفذ نہیں۔
     ۳:…’’ اقطار فی فرج المرأۃ‘‘ میں بعض فقہاء مالکیہ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کومفسد صوم قرار دینا صحیح نہیں، کیونکہ یہاں سے کوئی منفذ جوف کی طرف نہیں۔
     ۴:…حضرت امام مالک  ؒ کا ارشاد ہے کہ کان میں تیل ڈالنے سے اگر وہ حلق میں پہنچ گیا تو روزہ ٹوٹے گا ‘ورنہ نہیں ۔ اس سے بھی واضح ہے کہ امام مالک  ؒ کے نزدیک حکم شرعی کا مدار تشریح عضو پر ہے۔
     جب فقہء کرام نے اس کی تصریح کردی ہے‘ تو اب دیکھا جائے گا کہ تشریح ابدان کے ماہر اطباء کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟ بظاہر قدیم اطباء کا موقف وہی ہے جو مذکورہ بالا فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے ( اگر چہ فقہی عبارات میں اطباء کا حوالہ نہیں دیا گیا)۔
     اس مقصد کے لئے ہم نے کچھ قدیم طبی کتابوں کی طرف براہ راست مراجعت کی کوشش کی ، مگر طبی کتابوں سے ہمیں اس کی وضاحت نہ مل سکی ، البتہ ’’الموجز المحشی‘ ‘  کے حاشیہ میں درج عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے اطباء کان کا تعلق دماغ سے تسلیم کرتے تھے۔
     مگر اب ایک عرصہ سے تمام اطباء اور تشریح ابدان کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کان کے اندر سے دماغ تک کوئی راستہ موجود نہیں ہے ، اور اس بات پر بھی سارے اطباء اور ماہرین متفق ہیں کہ عام صحت مند آدمی کے کان سے حلق تک بھی کوئی ایساراستہ کھلا ہو انہیں ہے کہ جس سے دوا یا پانی حلق میں خود بخود جاسکے ، کیونکہ کان کے آخر میں ایک باریک مگر مضبوط پردہ ہے جس نے حلق یا دماغ کی طرف جانے کا راستہ مسدود کیا ہوا ہے ، اور عام حالات میں کان میں ڈالی جانے والی کوئی بھی دوا یا غذا حلق تک نہیں جاتی ، الا یہ کہ کسی کے کان کا پردہ پھٹ جائے یا کان کے پردے میں واضح سوراخ ہوجائے تو ایسی بیماری یا غیر معمولی صورت حال میں دوا اندرونی کان سے حلق کی طرف منتقل ہوسکتی ہے ‘ ورنہ نہیں۔
     ادھر یہ بات بھی بدیہی ہے کہ بیہوشی اور بیماری کی بعض صورتوں میں دوا اور غذا ناک کے راستہ سے ٹیوب کے ذریعہ معدے تک پہنچائی جاتی ہے‘ جس کا مشاہدہ ہسپتال وغیرہ میں ہوتا ہے ، لیکن کان کے ذریعہ غذا یا پانی حلق یا معدے تک پہنچانے کی کوئی صورت آج تک نہ دیکھی گئی نہ سنی گئی۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کان سے حلق تک کوئی منفذ موجود نہیں۔
     اب جبکہ تمام اطباء اور تشریح ابدان کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کان میں دوا ڈالنے سے دماغ تک اس کے پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ کان میں دوا ڈالنے کی صورت میں حلق تک اس کے پہنچنے کا بھی عام حالات میں کوئی راستہ نہیں ‘ تو ا س کا کسی جوف معتبر تک پہنچنا ثابت نہیں ہوتا۔ اور مذاہب اربعہ اس پر متفق ہیں کہ منافذ معتبرہ سے جوف معتبر تک پہنچنے ہی سے روزہ فاسد ہوتا ہے‘ اس کے بغیر نہیں۔
     اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ نے درج ذیل امور پر بطور خاص غور کیا:
     ۱:… فقہاء کرام  ؒ کی عبارات۔
     ۲:…حضرت مولانامفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم کی وہ تحقیق جو حضرت موصوف نے اپنی تحقیقی کتاب ’’ ضابط المفطرات‘‘ کے ص ۵۸ ؍پر درج فرمائی ہے، اور جس کے ظاہر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کان میں دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوناچاہئے۔
     ۳:…حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب مدظلہم کا جو فتوی ۲۴؍ جمادی الثانیہ ۱۴۲۲ھ کو تحریر کیا گیا۔ اس فتوی میں بھی کان میں دوا ڈالنے کو مفسد صوم قرار نہیں دیا گیا ۔
     ان تمام امور پر غور کرنے کے بعد’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ ‘‘ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ کان کے اندر پانی‘ تیل یا دوا ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، الا یہ کہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہو اہو‘ اور وہ پانی ‘ تیل یا دوا وغیرہ اس کے حلق تک پہنچ جائے۔
     البتہ اس کے باوجود اگر کوئی شخص قدیم جمہور فقہاء کے قول کے مطابق خود احتیاط کرے اور ورزہ کی حالت میں کان کے اندر دوا ڈالنے کے بجائے افطار کے بعد تیل یا دوا دالے تو اس کے لئے ایساکرنا بہتر اور شبہ سے بعید تر ہوگا۔
      یہ تحریر ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرہ‘‘ کے اجلاس منعقدہ ۲۰؍ شعبان ۱۴۲۲ھ میں پڑھ کر سنائی گئی اور ترمیم و اضافہ کے بعد آخری شکل دیتے ہوئے مندرجہ ذیل تمام شرکاء نے اس کی تصدیق کی اور اپنے دستخط ثبت فرمائے:
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی محمود اشرف صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی عبد المنان صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی اصغر علی ربانی صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا مفتی محمد کمال الدین صاحب مدظلہم ‘حضرت مولانا تفضل شاہ صاحب مدظلہم ‘مولانا زبیر اشرف صاحب مدظلہم ‘مولانا عمران اشرف صاحب مدظلہم ‘مولانا یحی صاحب مدظلہم ‘مولانا عصمت اللہ صاحب مدظلہم ‘مولانا حنیف خالد صاحب مدظلہم ‘مولانا زبیر سمشی صاحب مدظلہم‘ مولانا حسین احمد صاحب مدظلہم ‘مولانا یعقوب صاحب مدظلہم‘ مولاناافتخار بیگ صاحب مدظلہم‘ مولانا حسان کلیم صاحب مدظلہم ‘مولانا خلیل صاحب مدظلہم‘ مولانا سلیمان صاحب مدظلہم‘ مولانا یاسر عرفات صاحب مدظلہم ۔
نوٹ:… اختصار کے پیش نظر تمام عبارتیں ’’ البلاغ‘‘ سے حذف کردی گئی ہیں ، جو حضرات عبارتیں حاصل کرنا چاہیں وہ دار الافتاء جامعہ کراچی سے حاصل کر سکتے ہیں۔( ماہنامہ ’’ البلاغ‘‘ کراچی،بابت رمضان ۱۴۲۲ھ) مرغوب الفتاوی جلد سوم