Monday, April 8, 2019

سودی بینکوں کے کچھ جائز کام

اسلامی بنکاری، ضروری گزارشات
مفتی ارشاد احمداعجاز
ہمارے ہاں روایتی بینک  کے کام کو مطلقا برا سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ سے دو قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں:

پہلی غلط فہمی یہ پیدا ہوئی ہے کہ بینک کا کوئی کام حلال نہیں ہوتا۔حالانکہ یہ تصور غلط ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ بینک کا نیٹ ورک  پھیلا ہوا ہوتا ہے، کیش مینیجمنٹ کی صلاحیت بینک سے زیادہ اچھی کسی کی نہیں ہوتی اور بینک ،ادائیگی کے نظام (پیمنٹ سسٹم) کا حصہ ہوتا ہے لہذا ان تین وجوہات کی بنا پر بینک کو دو بنیادی کاموں کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے:

 (1) کلیکشن اینڈ پیمنٹ ایجنسی (الوکالة للقبض والأداء/الإعطاء) یعنی بینکنگ سسٹم کو ادارے اپنے واجبات کی وصولی کےلیےوکیل مقرر کرتے ہیں۔ چنانچہ تمام یوٹیلیٹی بل، اسکولوں کی فیسیں، یونیورسٹی کی فیسیں اور اس کے علاوہ دیگر وصولیاں سب اسی تصور کے تحت ہوتی ہیں۔ بنک اس ایجنسی (وکالة القبض) کی  اجرت (کمیشن) وصول کرتا ہے۔

آج کل بہت سی آن لائن خرید و فروخت کی کمپنیاں بینک کے ساتھ یہ معاہدے کرکے ان کے ذریعے ان کے ذریعے خرید و فروخت کی ادائیگیاں کراتے ہیں۔ٹیلی نار کا ایزی پیسہ، یو بی ایل کا اومنی اور اسی طرح کی دوسری اور خدمات دینے والی اسکیمیں اسی تصور کے تحت ہیں۔

ان سرگرمیوں کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر واجبات جائز ہوں تو ان کی وصولیابی پر کمیشن لینا بھی بلاشبہ درست ہے۔ لہذا روایتی بینک کی یہ آمدنی جائز ہوتی ہے۔

(2) دوسرا کام جس کےلیے بینک کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے وہ ہے بینک کے ذریعے فروخت کرنا۔ اوپر بیان کردہ تین وجوہات کی وجہ سے بینک ایک بہت اچھا 'تقسیم کار' (ڈسٹری بیوشن چینل)  بھی ہے۔ لہذا اگر کوئی ادارہ اپنی خرید و فروخت کا نظام بینک سے جوڑ دے یعنی اپنی مصنوعات بینک کے ذریعے بیچنا چاہے تو بینک اس کے لیے ایک بہت اچھا نیٹ ورک ثابت ہوتا ہے۔

لہذا جتنے فلیٹ اور کنسٹرکشن کے پروجیکٹس ہیں وہ عموما بینک کو اپنا ڈسٹری بیوشن چینل بناتے ہیں، بینک سے ان کے فارم ملتے ہیں اور بینک ہی میں ان کی پیمنٹ جمع کرائی جاتی ہیں۔ اسی طرح انشورنس اور دوسری مالیاتی مصنوعات کو بھی بینک کے ذریعے بیچا جاتا ہے۔ شیئرز کو جب پہلی دفعہ عوام کو فروخت کےلیے پیش کیا جاتا ہے (پبلک آفرنگ) تو بینکوں کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔

ان سب خدمات پر بینک کمیشن لیتا ہے جس کا شرعا وہی حکم ہے جو اوپر عرض کیا یعنی اگر جائز کام کا کمیشن ہے تو یہ کمیشن جائز ہے۔

دوسری غلط فہمی جو بینک کے بارے میں پیدا ہوئی ہے وہ یہ  ہے کہ بینک کے سارے کام ،سود کھانے یا کھلانے کی غرض سے ہی  کیےجاتے ہیں لہذا ان کی طلب حرام ہونے کی وجہ سے ان کی طلب کو جائز طریقوں سے پورا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔

یہ غلط فہمی بینکاری کے نظام کو 'مالیاتی وسائل فراہم کرنے والے نظام' کے طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔      

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بینک کے پاس جانے والا بنیادی طور پر اپنی جائز ضرورت لے کر جاتا ہے۔ اس کو یا تو سرمایہ کاری کرنا ہوتی ہے یا اپنی ضرورت کے لیےسرمایہ چاہیئے ہوتا ہے۔ اب وہ جس نظام کے پاس جاتا ہے وہ اس کو جائز ضرورت کا ناجائز حل یعنی سودی حل پیش کرتا ہے۔ لہذا اصل خرابی اس حل میں ہے جو سودی نظام ،ضرورت مندوں کو پیش کرتا ہے، ان ضرورتوں میں عموما کوئی خرابی نہیں ہوتی جو ضرورتیں پورا کرنے کے لیےلوگ بینکاری کے نظام سے رجوع کرتے ہیں۔

لہذا اسلامی بینک اور روایتی بینک کے پاس آنے والی ضرورتیں عموما ایک جیسی ہوں گی، جیسے :گھر، گاڑی، تعلیم، صحت، کاروبار اور دیگر حاجات۔ ان کو پورا کرنے کا طریقہ شرعا درست ہونا چاہیئے۔

لہذا میری نظر میں جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اسلامی بینک بھی وہی چیزیں کرتا ہے جو روایتی بینک کرتے ہیں تو اس اعتراض کے پیچھے یہ لاعلمی کارفرما ہوتی ہے۔

سوچنے کی بات ہے اگر کوئی گاڑی لینے آئے گا تو اس کو گاڑی ہی دی جائےگی کچھ اور تو دیا جا نہیں سکتا۔

بینکاری کے نظام کے بارے میں پائی جانے والی اس دوسری غلط فہمی کے نتیجے میں لوگ اسلامی بینک پر اعتراضات کرتے ہیں۔

پاکستان میں 5 مکمل اسلامی بینک ہیں:

1۔ میزان بینک۔

2۔ بینک اسلامی۔

3۔ دبئی اسلامک بینک۔

4۔ البرکہ بینک۔

5۔ برج بینک (اس کو البرکہ بینک نے خرید لیا ہے)۔

اس کے علاوہ مندرجہ ذیل بینکوں کی اسلامی بینکنگ کی برانچیں ہیں:

1۔ حبیب بینک۔

2۔ یو بی ایل۔

3 ایم سی بی۔

4 الائیڈ بینک۔

5۔ بینک الفلاح۔

6۔ بینک الحبیب۔

7۔ حبیب میٹرو پولیٹن بینک۔

8۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک۔

9۔ سنہری بینک۔

10۔ نیشنل بینک۔

11۔ سمٹ بینک (یہ بینک 3 سے 4 سال میں مکمل اسلامی بینک میں تبدیل ہو جائےگا)۔

12۔ سندھ بینک۔

13۔ بینک آف پنجاب۔

14۔ بینک آف خیبر۔

15۔ فیصل بینک۔ (یہ بینک بھی 3 سے 5 سال میں مکمل اسلامی بینک میں تبدیل ہونے کا منصوبہ رکھتا ہے)۔

16۔ سلک بینک۔

17۔ عسکری بینک۔

یہ سارے بینک (مکمل بینک اور اسلامی برانچوں والے بینک) ایک نظام کے تحت کام کرتے ہیں ان میں سے کسی میں بھی اکاؤنٹ کھولنا شرعا درست ہے۔

دو تین بینک ہیں جن کی اسلامی برانچیں نہیں ہیں جیسے:

1۔ فرسٹ ویمن بینک۔

2۔ این آئی بی بینک۔

روایتی بینکوں کے اسلامی بینکنگ ڈویژن کے علاوہ دوسرے ان شعبوں میں ملازمت کرنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا ہے جو شعبے روایتی بینکاری کرتے ہیں۔ صرف دو صورتیں ہیں جن کے لیے بعض مخصوص شعبوں(وہ شعبے جو براہ راست سودی معاملات میں ملوث نہیں ہوتے، صرف  سپورٹ فنکشن ہوتے ہیں) میں ملازمت کی گنجائش پر فتوی دیتے ہیں:

ایک شدید مجبور بے روزگار کو، اور دوسرا اس شخص کو جو ان شعبوں میں ملازم ہو اور اس کے لیےبینک چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنا فی الفور ممکن نہ ہو۔

وہ شعبے جو براہ راست سودی معاملات میں ملوث نہیں ہوتے، صرف  سپورٹ فنکشن ہوتے ہیں، یہ ہیں:

کیش مینجمنٹ کا کام

انتظامی نوعیت کے کام (ایڈمن) صفائی ستھرائی، مرمت وغیرہ، دیکھ بھال وغیرہ

چوکیداری

یوٹیلیٹی بلوں کی وصولی

کمپیوٹر پرنٹنگ، کمپوزنگ وغیرہ اگر سودی معاملات سے تعلق نہ ہو۔

Friday, January 18, 2019

اﳌﺴﺎﺋﻞ اﳌﺨﺎﻟﻔﺔ ﻟﺮﺳﻢ اﳌﻔﺘﻲ ﰲ ﻣﺨﺘﴫ اﻟﻘﺪوري


رابط التحميل

علم رسم المفتي، فهو علم
يبحث في كيفية تطبيق الفقه في الواقع .
وأصوله هي: الضرورة، والحاجة، ورفع الحرج، والتيسير، وفساد الزمان، والعرف، والمصلحة،
وعامة الأحكام الفقهية متعلقة بهذه الأمور، فكان لها تأثيرها البالغ في اختلافها من مجتهد إلى مجتهد، بسبب ختلاف بيئة الفقهاء وعصورهم، فقد كان لذلك أثر كبير في اختلافهم في كثير من الأحكام والفروع، حتى إنَّ الفقيه الواحدَ كان يرجع عن كثيرٍ من أقوالِه إلى أقوال أُخرى إذا تعرّض لبيئةٍ جديدةٍ تُخالف البيئة التي كان فيها.

وهذا العلمُ هو الأصولُ التي يعتمدُ عليها المجتهدُ في المذهبِ في التّرجيح والتّفريع والتّطبيق والإفتاء، كما يعتمد
المجتهدُ المستقلّ على أصولِ الفقه لاستخ ا رج الأحكام من الكتاب والسّنّة والآثار والتّرجيح بينها، فكما لا غنى للمجتهد المطلق عن أصول الفقه فهي القواعد التي تُمَكّنه من القيامِ بعلمه واستفراغ جهده في استنباط الأحكام، وهي آلته في ذلك فكذلك العالم في المذهب، فإنَّ رسمَ المفتي هي الأداة التي يتمكَّن بها من القيام  بعمله، وبذل جهده في إن ا زل الفقه على الواقع، والخروج من دائرة الخلاف، وتلبية حاجات مجتمعه، فهي الوسيلة لذلك. وكما أنَّ أُصولَ المجتهد المطلق تدور في محاور رئيسيّة فيها العديد من القواعد الأصوليّة وهي: الكتاب والسّنّة والإجماع والقياس، فكذلك فإنَّ أصولَ المجتهد في المذهب لها محاور رئيسيّةٌ مليئةٌ بقواعدِ الإفتاء، وهذه المحاور: هي الضرورة والعرف والتيسير، فهذه هي الأُصول الكبرى في رسم المفتي التي يرتكز عليها المفتي في فهمه وضبطِهِ وتطبيقِهِ للفقه.
اهتم البحث بإظهار عِلم رسم المفتي، وهو علم تطبيق الفقه؛ لأنَّه الحلقة ما بين المكلّفين والواقع وبين مسائل المجتهدين، ومن غير الالتفات إليه يكون علم الفقه عسي ا رً ونظرياً، وذلك باستخ ا رج مسائل من أشهر كتب مختص ا رت الفقه الحنفي، وهو التي تمسك فيها بظاهر الرِّواية، وخالف قواعد الرسم من: العرف، وفساد الزمان، والمصلحة، والتيسير، ،« مختصر القُدُوريّ »ورفع الحرج، فكانت الفتوى على خلاف ما عليه المتن؛ م ا رعاة للرسم من قبل علماء المذهب حيث نصوا على ذلك، فكان والتعريف بعلم الرسم وأهميته، والمبحث الثّاني في المسائل ،« مختصر القُدُوريّ » المبحث الأول في بيان الدرجة الرفعية لمختصر القُدُوريّ  والتعريف بعلم الرسم والمبحث الثّاني في المسائل المخالفة للرّسم، ببيان المسائل المخالفة للعرف وهي عشر، والمسائل المخالفة لفساد الزمان وهي ست، والمسائل المخالفة للمصلحة وهي ثنتان، والمسائل المخالفة للتيسير ورفع الحرج، وهي أربع، بالمقارنة مع كتب المذهب الحنفي،
وختمت البحث بخاتمة بينت فيها أهم النتائج

رابط التحميل

https://www.google.com/url?sa=t&source=web&rct=j&url=https://journals.ju.edu.jo/DirasatLaw/article/download/8853/7014&ved=2ahUKEwjS_Jb2pfnfAhUQbn0KHS6nB48QFjABegQIBRAB&usg=AOvVaw1WWYK7I4EfHWBJXsoElIHF

Saturday, August 13, 2016

بعض اہم اور جدید کتابیں


العنوان: 
مجلة الأحكام العدلية : فقه المعاملات في المذهب الحنفي معها قرار حقوق العائلة في النكاح المدني و الطلاق، النكاح-الإفتراق
عناية: بسام عبدالوهاب الجابي
الناشر: دار إبن حزم- الطبعة الأولى 2004

https://ia601308.us.archive.org/13/i...8%A7%D8%A8.pdf

----------------------------------------------------------------------------------

بيانات الكتاب:
"شرح حياة الصحابة" للكاندهلوي 
شرح: محمد إلياس الباره بنكوي
قدم له: أبو الحسن الندوي ـ عبد الفتاح أبو غدة
4 أجزاء ـ دار ابن كثير.
نظرا لأن حجم كل جزء من الكتاب كبير فقد قسمته إلى 8 أقسام ( كل جزء في قسمين أ و ب)
الجزء الأول:
أ 
http://www.4shared.com/file/12640830.../_______1.html
ب
http://www.4shared.com/file/12643432.../_______1.html

الجزء الثاني
أ
http://www.4shared.com/file/12645165...0/______2.html
ب
http://www.4shared.com/file/12642140...4/______2.html

الجزء الثالث:
أ
http://www.4shared.com/file/12813695...c/______3.html
ب
http://www.4shared.com/file/12814184...6/______3.html

الجزء الرابع:
أ
http://www.4shared.com/file/12816719...7/______4.html
ب
http://www.4shared.com/file/12817250...e/______4.html


-----------------------------------------------------------------

ألعاب الصبيان في عصر الرسالة
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/attachment.php?attachmentid=104458&d=1367499151


المفتي عميم الإحسان المجددي
أدب المفتي
http://www.4shared.com/get/gpR7Sxzrba/__online.html

بعض اہم اور جدید کتابیں


العنوان: 
مجلة الأحكام العدلية : فقه المعاملات في المذهب الحنفي معها قرار حقوق العائلة في النكاح المدني و الطلاق، النكاح-الإفتراق
عناية: بسام عبدالوهاب الجابي
الناشر: دار إبن حزم- الطبعة الأولى 2004

https://ia601308.us.archive.org/13/i...8%A7%D8%A8.pdf

----------------------------------------------------------------------------------

بيانات الكتاب:
"شرح حياة الصحابة" للكاندهلوي 
شرح: محمد إلياس الباره بنكوي
قدم له: أبو الحسن الندوي ـ عبد الفتاح أبو غدة
4 أجزاء ـ دار ابن كثير.
نظرا لأن حجم كل جزء من الكتاب كبير فقد قسمته إلى 8 أقسام ( كل جزء في قسمين أ و ب)
الجزء الأول:
أ 
http://www.4shared.com/file/12640830.../_______1.html
ب
http://www.4shared.com/file/12643432.../_______1.html

الجزء الثاني
أ
http://www.4shared.com/file/12645165...0/______2.html
ب
http://www.4shared.com/file/12642140...4/______2.html

الجزء الثالث:
أ
http://www.4shared.com/file/12813695...c/______3.html
ب
http://www.4shared.com/file/12814184...6/______3.html

الجزء الرابع:
أ
http://www.4shared.com/file/12816719...7/______4.html
ب
http://www.4shared.com/file/12817250...e/______4.html


-----------------------------------------------------------------

ألعاب الصبيان في عصر الرسالة
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/attachment.php?attachmentid=104458&d=1367499151


المفتي عميم الإحسان المجددي
أدب المفتي
http://www.4shared.com/get/gpR7Sxzrba/__online.html

Sunday, July 24, 2016

عورتوں کے لئے چہرہ چھپانے کا حکم

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عورتوں کیلئےچہرہ چپانا فرض ہے جب فتنہ کا خوف ہو. اس کا حوالہ عربی میں دیجئے، مہربانی ہوگی.
{{ عورتوں کے لئے چهرے کا پرده کرنا بهی واجب و ضروری هے پردے میں چهره بهی شامل هے }}
===================================
" يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا "
* سوره الاحزاب آیت 59 *
ترجمه.....اے پیغمبر! کہو اپنی بیویوں بیٹیوں اور عام مسلمانوں کی عورتوں سے کہ وہ لٹکا دیا کریں اپنے (چہروں کے) اوپر کچھ حصہ اپنی چادروں کا یہ طریقہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جایا کریں پھر ان کو کوئی ایذاء نہ پہنچنے پائے اور اللہ تو بہرحال بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے.
_________________________________
1: تشریح.....تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟
اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔
2: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔
امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے۔
حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے۔
3: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔
* تفسیر حضرت امام ابن کثیر ...سوره احزاب آیت نمبر 59 *
* تفسیر ابن جریر *
___________________________________
4: اس لئے عورت کو سارا بدن سر سے لے کر پیر تک چهپائے رکهنا هے غیر محرم کے سامنے اپنے هاته پیر ، سر کے بال کهولنا درست نهیں.
آنکهیں بهی زینت میں شامل هے اس لئے بعض بهنیں اس طرح سے چهره چهپاتی که اس کا آدها چهره کهولا هوتا هے لهذا اس سے بهی بچنا چاهیئے بلکه پورا چهره چهپانا چاهیے آج کل ایسے کپڑے سے بهی چادر بنایا گیا هے جس کے پیچهے سے راسته آسانی سے دیکها جاسکتا هے وه کپڑا آنکهوں کے لئے استعمال کیا کریں. تاکه آنکهیں بهی ڈهکی رهے اور راسته بهی آسانی سے نظر آئے.
___________________________________
5: الله تعالی نے فرمایا هے " وَلاَ یُبدِینَ زِینتَهُنَّ اِلاَّ ماَظَهَرَ مِنهاَ "
* سوره النور آیت31 *
ترجمه...عورتیں اپنی زینت کو ظاهر نه کریں مگر جوکهلا رهتا هے .
اس آیت مبارک کی وضاحت یه هے.... عورتیں اپنی زینت کو ظاهر نه کریں مگر جو کچه باَمر مجبوری کهلا رهتا هو... زینت سے مراد هر هو چیز هے جس سے انسان اپنے آپ کو خوبصورت اور خوشنما بنائے.
6: آیت میں " اِلاَّ ماَظَهَرَ " سے مراد حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عںه نے کپڑے ، زیور یا بناو سنگهار کی چیزیں بهی مراد لی هے .
اس کی دلیل بهی آیت سے هے " خُذُوا زِینتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدِِ " الاعراف ...لو اپنی زینت هر نماز کے وقت.
اس آیت میں زینت سے مراد کپڑے هیں اور مسجد سے مراد نماز هے ان معانی کے مطابق عورت کے لئے اپنے کپڑوں اور زیور کی نمائش بهی غیرمردوں کے سامنے منع هے.
پس اس سے ثابت هوا که جسم کو زینت کے جسمانی اعضاء کو ظاهر کرنا تو بدرجه اولی منع هوگا.
اس صورت میں مطلب بالکل صاف هے که اوپر کا کپڑا یعنی " برقعه " یا بیرونی چادر اس چهپانے کے حکم سے مستثنی هے وه اس میں شامل نهیں باقی تمام کپڑوں اور زیور ، اپنے جسم کی زینت کو چهپانا فرض هے.
7: حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنه نے زینت سے مراد اعضاء زینت بهی مراد لئے هیں .
اس کی وضاحت یه هے که اگر عورت کو مجبوری کے تحت بیماری کے علاج کے لئے یا شناخت کے لئے یا گواهی دینے کے لئے شرعی قاضی یا حاکم کے سامنے مواضع زینت کو کهولنا پڑے تو مجبوری کے تحت جائز هے .
اور مواضع زینت سے مراد " چهره اور هتیهیلیاں " هے..... اس بات پر علماء متفق هے که جب عورت کے چهرے کی طرف دیکهنا شهوت ابهرنے کا سبب بنے تو ایسی صورت میں عورت کے لئے چهره چهپانا اور مرد کا اس کی طرف نه دیکهنا فرض هے.
حتی کے قاضی یا حاکم بهی شناخت کے لئے اگر دیکهنا پڑا تو پهلی نظر بلاشهوت جائز هوگی دوسری نظر حرام هوگی.
_
بوڑهی عورت کے لئے اتنی گنجائش هے که وه صرف منه ، اور هتهیلی اور ٹخنے سے نیچے پیر کهولنا درست هے باقی اور بدن کا کهولنا کسی طرح سے درست نهیں.
______________________________________
سوره الاحزاب آیت نمبر 33... " وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا "
ترجمه.... " اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکواة دو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے اس گھر والو تم سے ناپاکی دور کرے اور تمہیں خوب پاک کرے "
_____________________________________
9: شریعت نے عورت کے ذمے کوئی ایسا کام نهیں لگایا که جس کی وجه سے اسے چار دیواری نے نکلنا پڑے وقتی ضرورت تو مجبوری اور معذوری میں داخل هے تا هم عورت جس قدر گهر میں رهے گی اتنا هی الله تعالی کا قرب پائے گی.
* ابن حبان *.... میں هے عورت اپنے رب سے سب سے زیاده اس وقت قریب هوتی هے جب وه اپنے گهر کے درمیان میں چهپی هو.
* طبرانی شریف میں هے* ... عورت صرف شرعی ضرورت کے تحت گهر سے نکلے.
___________________________
10: * امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکهتے هیں * که نیک بخت اور صاحب عزت عورت کا نشان گهونگهٹ هے تاکه بدنیت ، فاسق ، فاجر ان کے ساته چیڑ چهاڑ نه کریں.
عورت جب باهر هو تو شیطان اس کو غیرمردو کی طرف اور اس کو بهی غیرو کی طرف مائل کرنے میں لگتا هے اور ان کو بدنظر کا مرتکب کرواتا هے .
* ان المرءته عورته فاذا خرجت استشرفها الشیطان *..... یه نبی علیه السلام نے ارشاد فرمایا .
امام ابن کثیر نے اس کی وضاحت کی هے.... عورت چهپانے کی چیز هے جب گهر سے نکلتی هے تو شیطان اسے جهانکتا هے.
11: دوسرامعنی یه هے که شیطانی شهوانی نفسانی زندگی گزارنے والے لوگ عورت کو گهر سے باهر دیکه کر للچائی نظروں سے دیکهتے هیں ایسے فاسق ، فاجر ، فاحش لوگ شیطان کے نمائندے هوتے هیں ان کے جهانکنے کو شیطان کا جهانکنا کها گیا هے.
* مشکوته شریف * میں نبی علیه السلام کا فرمان هے کتاب النکاح میں....میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے زیاده بڑا فتنه کوئی نهیں دیکها.
یه چند باتیں هے جس سے فتنه پهیلنے کا اور زنا و فحاشی کا راسته کهولنے کا اندیشه هوتا هے.
فاسقین فاجرین بے پرده عورتوں کو دیکه کر هی شر انگیز منصوبے بناتے هیں اس لئے همیں قریب هی نهیں جانا چاهے فحاشی و بدکاری کے کاموں کے.
بلکه ایک اور واضیح روایت نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے عورتوں کو حالت احرام میں چهروں پر نقاب ڈالنے اور دستانے پهننے سے منع فرمادیا تها.
اس سے ظاهر هوتا هے که اس خیرالقرون کے دور میں نبی علیه السلام کے مبارک دور سے هی چهروں کے لئے نقاب اور هاتهوں کو چهپانے کے لئے دستانوں کا رواج عام هوچکا تها.
12: حضرت عائشہ فرماتى ہیں كہ ہم رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ حالت احرام ميں ہوتی تھیں ۔ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے ، جب ہمارے سامنے آتے تو ہم ميں سے ہرایک اپنی چادر اپنے سر سے نیچے لٹکا لیتی ۔ پھر جب وہ گزر جاتے تو ہم پردہ پیچھے ہٹا لیتے۔
( حديث: بحوالہ سنن أبى داود: كتاب المناسك ۔ باب في المحرمہ )
اس لئے یه فتوی هے " عورت کو چهره کهولنے سے روکا جائیگا ان کو اجازت نهیں دی جائی گی که وه اپنا چهره کهولیں کیونکه چهره کهولنے کی صورت میں غیرمردوں کی طرف سے ان پر شهوت بهری نگاه پڑتی هے "
* درمختار جلد اول *

Thursday, July 7, 2016

صيام الست من شوال


تفصيل رائع من شيخنا الفقيه محمد بن محمد المختار الشنقيطي - حفظه الله .عن صيام الست من شوال .
هل تصام أيام العيد أم أن من الفقه تأخيرها  ؟؟
قال الشيخ - حفظه  الله  :-
الأفضل الذي تطمئن إليه النفس، أن الإنسان يترك أيام العيد للفرح والسرور .
ولذلك ثبت في الحديث الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال في أيام منى:
(إنها أيام أكل وشرب)، كما جاء في حديث عبد الله بن حذافة :
(فلا تصوموها) ، فإذا كانت أيام منى الثلاثة لقربها من يوم العيد أخذت هذا الحكم، فإن أيام الفطر لا تبعد فهي قريبة.
ولذلك تجد الناس يتضايقون إذا زارهم الإنسان في أيام العيد فعرضوا عليه ضيافتهم، وأحبوا أن يصيب من طعامهم فقال:
إني صائم، وقد جاء عنه عليه الصلاة والسلام أنه لما دعاه الأنصاري لإصابة طعامه ومعه بعض أصحابه، فقام فتنحى عن القوم وقال:
إني صائم، أي: نافلة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:
(إن أخاك قد تكلّف لك فأفطر وصم غيره).
فحينما يدخل الضيف في أيام العيد، خاصة في اليوم الثاني والثالث، فإن الإنسان يأنس ويرتاح إذا رأى ضيفه يصيب من ضيافته، كونه يبادر مباشرة في اليوم الثاني والثالث بالصيام لا يخلو من نظر .
فالأفضل والأكمل أن يطيب الإنسان خواطر الناس، وقد تقع في هذا اليوم الثاني والثالث بعض الولائم، وقد يكون صاحب الوليمة له حق على الإنسان كأعمامه وأخواله، وقد يكون هناك ضيف عليهم فيحبون أن يكون الإنسان موجوداً يشاركهم في ضيافتهم.
فمثل هذه الأمور من مراعاة صلة الرحم وإدخال السرور على القرابة لا شك أن فيها فضيلة أفضل من النافلة.والقاعدة تقول:
(أنه إذا تعارضت الفضيلتان المتساويتان وكانت إحداهما يمكن تداركها في وقت غير الوقت الذي تزاحم فيه الأخرى، أُخرت التي يمكن تداركها) .
فضلاً عن أن صلة الرحم لاشك أنها من أفضل القربات .
فصيام ست من شوال وسّع الشرع فيه على العباد، وجعله مطلقاً من شوال كله، فأي يوم من شوال يجزئ ما عدا يوم العيد.
بناءً على ذلك فلا وجه لأن يضيق الإنسان على نفسه في صلة رحمه، وإدخال السرور على قرابته ومن يزورهم في يوم العيد، فيؤخر هذه الست إلى ما بعد الأيام القريبة من العيد؛ لأن الناس تحتاجها لإدخال السرور وإكرام الضيف، ولا شك أن مراعاة ذلك لا يخلو الإنسان فيه من حصول الأجر، الذي قد يفوق بعض الطاعات كما لا يخفى.

من شرح زاد المستقنع_ باب:
صوم التطوع
اللهم صل على محمد وعلى آله وصحبه وسلم