Monday, May 23, 2016

فقہ اسلامی اور اجتماعی اجتہاد کی ضرورت و حیثیت

فقہ اسلامی اور اجتماعی اجتہاد کی ضرورت 
قرآن و حدیث جیسے ، مستحکم اور باوجود قدیم ہونے کے افادیت اورنافعیت میں دوام کی خصوصیت رکھنے والے مآخذ کے بعد اگر امت مسلمہ کی کوئی دوسری خصوصیت ہے تو وہ علم قفہ اور اصول فقہ ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے قرآن وحدیث کی رہ نمائی کو دوام بخشنے کے لیے ہی امت کو یہ علم ودیعت فرمایا۔ ارشاد نبوی ’رب حامل فقہ إلی من ہو افقہ منہ‘ سے یہ بات اچھی طرح سمجھی جا سکتی ہے۔اور اللہ تعالی نے جس طرح قرآن و حدیث کی حفاظت کے لیے مطلوبہ صلاحیت والے مخصوص افراد ہر دور میں پیدافرمائے اسی طرح ابتدائِ اسلام سے لے کر آج تک امت کی بہترین صلاحیتیں اس علم پر بھی وقف ہوئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ علم فقہ اور اور اصول فقہ ، امت محمدیہ کی وہ گراں مایہ پونجی ہے ، جس پر اس کے جمیع شعبہ جات کا مدار ہے، اسی نے امت کو صراط مستقیم پر لگائے رکھا ہے، اور اسی کی بدولت مسلمان اپنے دین و عمل میںرسومات کی بجائے حقائق سے بندھے ہوئے ہیں، جن مذاہب کے پاس یہ فنون نہیں، وہ اپنی مذہبی کتابوں اور پیشواؤں کے اقوال کے صحیح معانی اور مصادق کو متعین نہیں کرسکے، اور افراط و تفریط میں مبتلا ہوکر جادۂ حق سے کچھ ایسے بھٹک گئے کہ آج ان کے پاس مذہب کے نام پر جو کچھ ہے وہ جاہلوں اور ہوا پرستوں کی کھوکھلی رسومات کے علاوہ کچھ نہیں۔علامہ حَجْوی مالکی ؒ فرماتے ہیں: امت مسلمہ کی حیات ’فقہ ‘پر ہی موقوف ہے اور عقیدۂ توحید کے بعد ’فقہ ‘ہی وہ واحد رابطہ ہے جو امت کو مجتمع رکھتا ہے،فقہ کے استحکام میں ہی امت کا استحکام اور فقہ کی کمزوری امت کی کمزوری ہے۔ (الفکر السامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی ، ص : ۷)

دور نبوی میں اگر چہ مختلف احکام میں تشریع اپنے اصل منبع یعنی وحی الٰہی سے صادر ہوتی تھی، لیکن ضرورت پڑنے پر نبی کریم ﷺ نے اجتہاد کی دونوں شکلوں (انفرادی اور اجتماعی) کو اختیار فرما کر بھی احکام متعین فرمائے تھے۔ نداء للصلوۃ(اذان) کے لیے اوراساری بدر کے متعلق نبی کریم ﷺ کے مشورہ سے یہی مستفاد ہوتا ہے۔

البتہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد تو محدود نصوص (یعنی احکام سے متعلق ۴ یا ۵ہزار احادیث اور چار سویا پانچ سو آیات ) کے مقابلہ میں رونما ہونے والے لا تعداد حوادث و نوازل کا حکم دریافت کرنے کے لیے ناگزیر تھا کہ ان نصوص میں غور وفکر کیا جائے، اوربراہ راست ان نصوص سے کوئی حکم معلوم نہ ہو سکے تو اجتماعی یا انفرادی اجتہاد کے ذریعہ، ان ہی نصوص سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احکام کا استنباط و استخراج کیا جائے۔

حضرت معاذ رضی اللہ کی ان کے قول’ أَجتہد برأی و لاَ آلُو‘ پر نبی کریم ﷺ نے تائید فرما کر انفرادی اجتہاد کو مشروع فرمایا تو حضرت علی کی حدیث سے اجتماعی اجتہاد کی مشروعیت مستفاد ہوتی ہے۔معجم اوسط کے حوالہ سے مجمع الزوائد، کتاب العلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ : إن نزل بنا أمر لیس فیہ بیان أمر و لا نھی ، فما تأمرُنیِ ؟ قال : شاوروا فیہ الفقہاء والعابدین ولا تمضوا فیہ رأی خاصۃٍ ۔ 

چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ دورِ صحابہ و تابعین میں متعدد مسائل میںیہ طریقہ اپنایا گیا، ہجری تاریخ کی ابتداء ، شربِ خمر کی حد کی تعیین وغیرہ بہت سے امور ہیں، جو دورِصدیقی اور خاص کر عہد فاروقی میں اجتماعی مشورہ سے طے کیے گئے، اگر چہ بہت سے مسائل بعد میں ’اجماع ‘کے ماتحت شمار کیے گئے؛ لیکن بنیادی طورپر یہ سب اجتماعی غور و فکر کی مساعی کی مثالیں ہیں۔

اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے دور میںبھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔

فقہی احکام کے حوالے سے عراقی اور حجازی مکاتب فکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔ شورائیت اسی اعتبار سے مذہب حنفی کی ایک خصوصیت شمار کی جاتی ہے۔عمر بن عبدالعزیز ؒ کا مدینہ کے فقہاء عشرہ کو جمع کرکے مشورہ کرنے کا قصہ متعدد کتابوں میں مرقوم ہے۔ ہندوستان میں اورنگ زیب ؒ کا ’فتاوی عالم گیری‘ کی ترتیب اور سلطنت عثمانیہ میں ’مجلۃ الاحکام‘کی ترتیب کا کام بھی اس آخری دور کی اجتماعی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ مذاہب فقہیہ میں بھی کسی نہ کسی درجہ میں اجتماعی اجتہاد اپنی ابتداء سے چلاآرہا ہے، اگر چہ یہ مساعی ایک اعتبار سے ’شخصی اجتہادمع الشوری‘ کی ہیں، مگر ان سے ہمارے اس دور میں رائج اجتماعی غوروفکر کے طریقہ کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

قرآن کریم کی جن آیات سے تفقہ فی الدین پر استدلال کیا جاتا ہے، یعنی ارشاداتِ الٰہیہ : لَعَلِمَہٗ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُمْ ، / لِیَتَفَقَّہُوا فِیْ الِّدیْنِ،/ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ / وَأَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ۔۔وغیرہ، ان ہی آیات سے ایک طرف شخصی تفقہ پر استدلال درست ہے تو دوسری طرف یہی آیات اجتماعی تفقہ اور اجتہاد کے لیے بھی مکمل سند فراہم کرتی ہیں۔

شیخ مصطفی زرقا نے اجتماعی اجتہاد کی ان مساعی کے متعلق دلچسپ بات لکھی ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ : ’’شخصی اجتہاد زمانہ ٔماضی کی ضرورت تھی،جب کہ آج یہی چیز بڑی نقصان دہ ہے، وہ اندیشے ، جن کے واقع ہونے کے خوف سے چوتھی صدی ہجری میں فقہاء ِمذاہب نے اجتہاد کا دروازہ بند قرار دیا تھا، وہ اندیشے آج حقیقت واقعہ بن گئے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت میں شریعت ،اس کی حقیقت، روح، حیات اور حرکت کے ساتھ ، اُس اجتہاد کے ذریعے دوبارہ جاری کریں ، جس کا جاری رہنا امت میں ضروری بھی ہے ،تو لازم ہیں کہ ہم اجتہاد کا کوئی نیا اسلوب اختیار کریںاوریہ نیا اسلوب انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد ہے، اسی اجتہاد سے ہم اجتہاد کے دورِصدیقی اور دورِ فاروقی کی طرف لوٹ سکیں گے۔ ‘‘(الفقہ الاسلامی و مدارسہ )

حوادث اور نوازل میں اس طرح اجتماعی غور و فکر یا اجتماعی اجتہاد کے بعد پیش کیے گئے حکم یا رائے کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے،یہ ایک تفصیلی بحث ہے، اس سلسلے میں مختصراً اتنا عرض ہے کہ یہ رائے ان اہل علم کے لیے جنہوں نے اس کو پیش کیا ہے، اور ان اہل علم کے لیے جنہوں نے اس مسئلہ میںکوئی اجتہاد نہیںکیا، اور عوام کے لیے لازم اورمُلْزِم ہونی چاہیے۔ البتہ خلاف رائے رکھنے والے کے لیے اکثریت کی رائے ملزم نہ ہوگی۔اور بعد کے زمانہ میں اس موضوع پر غور وفکر اور اجتہاد کی گنجائش باقی رہے گی۔

ماخوذ از :خطبہ استقبالیہ ، ۲۳ واں فقہی سیمینار ، اسلامک فقہ اکیڈمی جمبوسر